• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی دشمن کی خبر لے!
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے:افغانستان سے پاکستان پر حملوں کے پیچھے بھارت ہے، ہم منہ توڑ جواب دیں گے، چاروں طرف ہے رونق برابر لگی ہوئی، سیاستدان حکمران نادان، دے جلسے پہ جلسہ اور عوام اقتدار کا تعاقب کرنے والوں کا بندر تماشا دیکھ رہے ہیں، کہنے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ؎
’’فرما‘‘ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
کچا لوہا فولاد اور فولاد کچا لوہا بن گیا ہے، کسی کی سیاسی تقریر میں سیاسی تاریخ کی ترتیب ہے نہ تصدیق، درست عنوان تلے غلط مضامین لکھے، کہے، سنے جا رہے ہیں، دشمن، اومان، چا بہار میں اسلحہ اتار چکا ہے، اومان تو چلو کچھ دور ہے ایران کا علاقہ چا بہار تو پاکستان سے 32,30کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اب وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ افغانستان سے پاکستان پر حملوں کے پیچھے بھارت ہے، اور ہم ان حملوں کا منہ توڑ جواب دیں گے، جواب تو مسلسل منہ توڑ ہی دے رہے ہیں مگر نہ جانے دشمن کا منہ کس چیز سے بنا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں ضرور اس کے پیچھے کوئی سات سمندر پار کا ماہر پلاسٹک سرجری ہے، اور وہ اسے نت نیا چہرہ لگا دیتا ہے، بھارت اکیلا نہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ نظر آتا ہے باقی سلیمانی ٹوپی پہنے بیک اپ پر رہتے ہیں، اور ہمارے ہاں اقتدار کے بھوکے، رجے عوام کی عدالتیں لگا کر ان سے انصاف نہیں اقتدار مانگ رہے ہیں، انہیں پروا ہی نہیں کہ وہ دشمن جس کا ہدف پاکستان کو مٹانا ہے اپنے سہولت کاروں مدد گاروں سمیت ہر سرحد سے اپنی کمین گاہ میں بیٹھا خطرناک کمینگیاں سوچ رہا ہے، اور اس پر عمل بھی، ہماری فوج ہر بار منہ توڑ دیتی ہے مگر وہ راتوں رات منہ سنوار بازار سے پھر منہ ٹھیک کرا کے حملہ آور ہو جاتا ہے، جب سے جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستان بنایا گیا ہے، رذیل دشمن چین نہیں لینے دیتا منیر نیازی کا ایک شعر یاد آ گیا؎
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
٭٭٭٭
نہ ڈرا سکو گے مجھے اب!
وزیر نج کاری دانیال عزیز کہتے ہیں! عوام نے پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس ملک میں سارے جنازے عوام ہی نکالتے ہیں، عوام کی عدالت سے پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ اب یہ کام کرنے لگے ہیں؟ جنازہ سیاست کا ہو یا کسی انسان کا اس سے ڈر لگتا ہے، عوام سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ جن جن کی سیاست کا وہ جنازہ نکالتے ہیں وہ مردے پھر سے جنازے کی چارپائی پر اٹھ کیوں بیٹھتے ہیں، اور عوام سے کہتے ہیں ذرا ایک چکر اور دینا بڑا مزا آ رہا ہے، کہنہ مشق سیاستدانوں کے بیانوں سے لگتا ہے کہ کسی روز عوام اجتماعی جنازہ نہ نکال دیں، اور پھر پڑھانے کے لئے کوئی نیم ملا بھی دستیاب نہ ہو، دانیال عزیز نے بڑی تپسیا کی ہے، اب وہ نج کاری کے وزیر ہیں، آرام کریں اور دھیرے دھیرے نجکاری کریں، محترم طلال نے بھی اب دھیمے سُر اپنا لئے ہیں، بہرحال عدالت کے باہر ان دو وزراء کرام نے جس جوش و خروش سے عوامی عدالتیں لگائیں ان کا فائدہ ن لیگ کو ضرور ہوا، خان صاحب نے پچھلے دنوں تین چار بڑے جلسے کئے مگر نواز شریف کے جلسوں کا حجم دیکھ کر انہوں نے تیسری شادی رچا لی، پہلی دو کو تو انہوں نے ویٹو کر دیا، تیسری پر شاید وہ یہ اختیار بھی کھو بیٹھیں، اس لئے اب وہ اپنے اسپتال پر توجہ دیں، ان کی پارٹی میں بھی دراڑیاں پڑنے لگی ہیں کہیں ان کی ٹیم کسی روز یہ نہ کہہ دے؎
ہولے ہولے بھکدے آں کدی بھانبڑ مچ ویسی
مانا کہ نواز لیگ کا صرف نون باقی رہ گیا ہے جسے عباسی صاحب کوٹ کئے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھاتے، وہ واقعی اب ایک نظریہ ہیں، نیلسن منڈیلا ہیں، بلکہ شیخ مجیب بھی، ان کی پارٹی راج کرے گی مگر راجا وہ کہلائیں گے، یہ منصب وزارت عظمیٰ سے بھی بڑا ہے۔ وزارت عظمیٰ تو ان کا پانی بھرے گی، انہوں نے شیخوپورہ میں برملا کہا ’’صرف اللہ سے ڈرتا ہوں‘‘، یہ ڈرانے والے اب کان کھول کر سن لیں؎
مجھے اب نہ ڈرا سکو گے
جو ایک اور جلسہ کر دوں تو کہیں نہ جا سکو گے!
٭٭٭٭
وزیراعظم کی شرافت کو سلام
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے میرے لیڈر نواز شریف ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ میرے وزیراعظم ہیں، اور یاد رکھیں لیڈر، وزیراعظم سے بڑا ہوتا ہے، لیڈر پیر ہوتا ہے تو وزیراعظم مرید، ایک زمانہ تھا لوگ آنکھیں بند کر کے کہتے تھے ساڈا لیڈر بھٹو، مگر مسلم لیگ کے ساتھ جب سے نون لگا ہے، اب ہر دل کی آواز نواز شریف ہیں، زمین وطن پر اصل حکمرانی اس کی ہوتی ہے جو دلوں پر راج کرتا ہے، وزیراعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ اس وقت پورا پاکستان پنجاب کو کامیاب صوبہ سمجھتا ہے، خود سابق وزیراعظم نے بھی اقرار کیا کہ شہباز شریف نے لاہور کو ملک کا خوبصورت ترین شہر بنا دیا، جائیں پشاور کو بھی دیکھیں دل پکار اٹھے گا؎
اس بیوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
وزیراعظم نے یہ بھی واضح کر دیا کہ مریم کی لیڈر شپ کا کبھی سوال نہیں آیا، اور اگر یہ سوال آئے بھی تو اس میں حرج ہی کیا ہے، وہ جب والد کے ہمراہ لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کرتی ہیں تو پنڈال میں ’’کھرج‘‘ اور ’’کومل‘‘ دونوں سُر جاگ اٹھتے ہیں، اور یوں نغمہ سیاست سر چڑھ کر بولتا ہے، شہباز شریف ہوں یا خاقان عباسی دونوں نواز شریف کے سامنے بہ لحاظ ادب ایک ہی پیج پر ہوتے ہیں، بہت شور مچا کہ بھائیوں میں دراڑ پڑ گئی، اور یہ دراڑ کہنے والوں کی عقلوں پر پڑ گئی، جب لودھراں کے اسٹیج پر سارا خاندان یکجان کھڑا نظر آیا، یہ کوئی فوٹو سیشن نہیں تھا حقیقت بھی یہی ہے، شاہد خاقان عباسی کے لہجے اور انکسار میں عظمت ہے، وہ نواز شریف کے تربیت یافتہ ہیں، انہیں لیڈر نے جہاں بٹھایا وہ بیٹھ گئے، اسلام آباد میں معاملات و حالات میں وزیراعظم کی طبیعت جیسا ٹھہرائو ہے، کیا یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا، غیر مدلل تنقید ناقد کا وقار چھین لیتی ہے، بے وجہ کی تنقید اور تصادم تو انسان کو لیڈر شپ سے بھی محروم کر دیتی ہے۔
٭٭٭٭
تبدیلی آئی وے!
....Oنواز شریف:صرف اللہ سے ڈرتا ہوں،
ہک اللہ کولوں میں ڈر دی
میں یار دی گھڑولی بھر دی
....Oایک دیدہ زیب تصویر میں سیتا وائٹ، جمائما، ریحام خان اور پنکی جلوہ گر،
کہاں نقش اول کہاں نقش ’’ثالث‘‘
خدا کی خدائی میں تجھ سا نہ دیکھا
....Oعائشہ گلالئی کی عمران خان کو تیسری شادی کی مبارکباد
یہ عائشہ گلالئی کا بڑا پن ہے، بعض اوقات زہر بھی امرت سمجھ کر پینا پڑتا ہے۔
....Oیہ تو سنا تھا کہ اکثر پیر اپنی مریدنی سے شادی کر لیتے ہیں، اور یہ کوئی شجر ممنوعہ نہیں۔
مگر خان صاحب کے کیس میں مرید نے پیرنی سے شادی کر لی، یہ درست بھی ہے اور تبدیلی بھی بس اس سے آگے کوئی تبدیلی عمران کے پاس نہیں، وہ تبدیلی جس کا سب کو انتظار تھا وہ اب سن لیں دیکھ لیں کہ تبدیلی آئی وے!

تازہ ترین