• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دنیا جس افراتفری میں مبتلا ہے یہ سب ایک بڑے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اگر ہم ماضی قریب میں دیکھیں تو 1970ء سے پہلے کا دور اور آج کے دور کا فرق ہمیں واضح نظر آجائے گا پچاس برس قبل تک تمام مسلم ممالک جو بھی تھے جتنے بھی تھے ان میں امن و امان کی صورت حال آج کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔ دراصل تمام غیر مسلم قوتیں خصوصاََ کلیسا اب تک اس بیس سالہ دور کو نہیں بھولا جس میں صلیبی جنگیں ہوتی رہیں جب کلیسائی ممالک کو شدیدہزیمت کا اور بے شمار جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا جس پران تمام غیر مسلم قوتوں نے کلیسا کے زیر اہتمام انتظام میں اپنے انتقام کے لئے پہلی جنگ عظیم چھیڑی، اس وقت مسلمانوں کی ایک بڑی قوت سلطنت عثمانیہ کے تحت قائم تھی عثمانی حکومت جو تقریباََ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی، کے ساتھ تمام دنیا میں پھیلے مسلمان خود کو سلطنت عثمانیہ کے تابعدار سمجھتے تھے کلیسا نے ایک سازش تیار کی کیونکہ وہ مسلمانوں کے اقتدار اور قوت کا بخوبی اندازہ کر چکے تھے اس لئے انفرادی کی جگہ اجتماعی طور پر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے عزم سے انہوں نے پہلی جنگ عظیم کا میدان سجایا اس میں وہ کامیاب رہے اور سلطنت عثمانیہ کو فتح کر کے ختم کردیا۔ یورپ اور تمام غیر مسلم قوتوں نے خلافت عثمانیہ کے آخری سلطان خلیفہ سلطان محمد وحید الدین کو شکست فاش دے کر قید کرلیا اور بالجبر اس سے ایک سو سالہ معاہدہ 1923ء میں کیا جس کے تحت سلطان کو تمام سلطنت میںپھیلی املاک سے بے دخل کرکے قبضہ کرلیا گیااور ترکی کا اقتدار چھین لیا۔ سلطان کی جگہ ایک سوشل نظریات کے شخص کمال اتاترک کو ترکی کا حکمران بنادیا ۔اس نے تمام ترکی میں اسلامی اقدار اور مذہبی رسوم و رواج اور اعمال پر پابندی لگا دی، عورتوں کو بے حجاب کردیا۔ آج اس معاہدے کی خبر مسلم عوام کو تو کیا مسلم حکمرانوں تک کو شاید ہی ہو کلیسا اس لئے بے چین اور متفکر ہے کہ اس کے ہاتھ سے مسلم امت کا اہم مرکز اور قوت نکلنے جا رہی ہے طیب اردوان کو خلافت عثمانیہ کا جدید نمائندہ سمجھا جا رہا ہے اس لئے اس کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
آج جبکہ اس معاہدے کی تکمیل میں صرف پانچ سال باقی رہ گئے ہیں یعنی 2023ء میں اس سو سالہ معاہدے کی مدت پوری ہو رہی ہے۔ کلیسا نے اس معاہدے کی وجہ سے نہ صرف ترکی کا اقتدار چھینا اور سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا وہ تمام ریاستیں جو عثمانی اقتدار کے زیر سایہ تھیں انہیں اپنے قبضے میں لے کر بتدریج مجبوراََ آزاد کیا جو تقریباََ 23 ریاستیں تھیں۔ برطانیہ جو کلیسا کا سب سے اہم اور بڑا مرکز ہے عثمانی سلطنت کا انتظام برطانیہ کے قبضے میں تھا اس نے بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہی مسلم علاقے فلسطین کو دو لخت کر کے اسرائیل کے ناسور کو جنم دیا اور اب تقریباََ پچاس برسوں سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر رہا ہے اسی لئے تمام غیر مسلم قوتوں کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو متحد نہ ہونے دیا جائے وہ اپنی ناپاک سازشوں کے ذریعے مسلم ممالک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں تمام تر ہنگامہ آرائی تمام تر خون خرابہ صرف مسلم ممالک میں ہی کیوں ہو رہا ہے ہر آفت اور ہر مصیبت کا مسلمان ہی کیوں شکار ہو رہے ہیں ان تمام کلیسائی قوتوں نے عثمانی حکمران سے جو سو سالہ معاہدہ کیا تھا وہ لمحہ لمحہ ختم ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے جیسے جیسے اس معاہدے کا وقت ختم ہو رہا ہے ویسے ویسے مسلمانوں میں بے چینی بے کلی بڑھا کر انہیں منتشر کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے کلیسا مسلمانوں سے خوف زدہ ہے کہ کہیں پھر یہ اگر متحد ہوگئے تو کلیسا کا دنیا سے نام و نشان مٹ سکتا ہے اس لئے وہ اس خوف سے نکلنے کے لئے مسلم ممالک و ریاستوں میں اپنی پوری منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق خود ہی ساری کارروائیوں کی سرپرستی کرنے کے باوجود ان ممالک کو ہر طرح کی دھمکیوں سے ڈرایا دھمکایا بھی جا رہا ہے تاکہ کوئی بھی اطمینان سے حکمرانی نہ کرسکے اور اپنے زخموں کو ہی چاٹتا رہے ظالم مارے اور کمزور کو رونے بھی نہ دے۔
اللہ کا نظام اٹل ہے اور اس کی لاٹھی بے آواز ہے یہود و نصاریٰ چاہے جتنی ہوشیاری جتنی چالاکی کرلیں جتنی سازشیں کریں۔ اللہ نے مسلمانوں کیخلاف ہونیوالی تمام سازشوں کے سد باب کے لئے ایک عثمانی ترک کو کھڑا کردیا ہے ترک صدر طیب اردوان جس کیخلاف امریکہ اور اسکے حواریوں نے فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنا چاہا تھا اسے ناکام بنا دیا طیب اردوان کو اللہ نے وہ حوصلہ و ہمت دی ہے کہ وہ اپنے سے بڑی سپر طاقتوں سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتا ہے تمام عالم کے مسلمانوں کی حمایت کرتا ہے معاہدے کا وقت ختم ہونے سے قبل ایک ایسی شخصیت سامنے آچکی ہے جو نہ صرف ترکی بلکہ تمام غیر مسلم صہیونی اور کلیسائی قوت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
سی آئی اے، موساد، را اور اسرائیلی ایجنسیوں کا کام ہی صرف یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو کہیں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیں چاہے وہ مملکت خداداد پاکستان ہو ایران ہو افغانستان ہو عراق، شام، لبنان، یمن، سعودی عرب، کویت، قطر اور دیگر افریقی ریاستیں جہاں جہاں مسلم اکثریت ہے وہاں وہاں ہنگامے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے مسلمانوں کو کہیں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا خواہ یورپی ممالک ہوں یا افریقی ممالک ہوں یا امریکی اور روسی ممالک وہاں کے مسلمان شہریوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا دراصل تمام غیرمسلم دنیا اور کلیسائی دنیا خوف کا شکار ہے کہ 2023ء کے بعد کیا ہوگا حالانکہ خود یہی قوتیں جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کیا ہے چورا نوے پچانویں سالوں میں بھی اپنی سی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن جوں جوں وقت قریب آرہا ہے ان کے خوف میں اضافہ ہو رہا ہے اور بد حواسی کا شکار ہو کر مسلمانوں کو ہرطرح ہر طریقے سے نقصان در نقصان پہنچا رہے ہیں اب دیکھنا اور سمجھنا یہ ہے کہ 2023ء تک یا اس سال میں کیا گل کھلاتے ہیں مبصرین کا گمان ہے کہ کہیں تیسری عالمی جنگ نہ چھیڑ دی جائے اور اسکی آڑ میں مسلمانوں کو پھر ایک بار خاک و خون میں نہلا دیا جائے اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کی حفاظت کے لئے ترک صدر طیب اردوان کو منتخب کرلیا ہے اگر کلیسا نے کسی طرح اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تو اب مسلمانوں کو بے دست و پا نہیں پائے گا اللہ اسلام دشمنوں کو نیست و نابود کرے گا، ان شاء اللہ۔

تازہ ترین