• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت پارلیمنٹ میں کی گئی بات پر پارلیمنٹرین کو نہیں چھوسکتی ، علی ظفر

Todays Print

کراچی(جنگ نیوز)بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں کی جانے والی کسی بات پر عدالت پارلیمنٹرین کو نہیں چھوسکتی ہے، آئین کا آرٹیکل 68 واضح ہے پارلیمنٹ میں جج کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جاسکتی ،کوئی پارلیمنٹرین ججوں کے کنڈکٹ پر بات کرے تو اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کو انہیں روکنا چاہئے،عدالت کیس کو سمجھنے کی کوشش کے دوران آبزرویشن دیتی ہے، ججوں کو نپی تلی اور ایک تناظر میں آبزرویشن دینی چاہئے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کر رہے تھے۔ پروگرام میں ن لیگ کے رہنما جاوید عباسی بھی شریک تھے۔جاوید عباسی نے کہا کہ وزیراعظم اور چیف جسٹس نے جو باتیں کہیں وہ ایک ہی طرف گئی ہیں، وزیراعظم اور ہم سب چاہتے ہیں تمام ادارے آئین میں متعین کی گئی حدود میں رہ کر کام کریں، پارلیمنٹ میں عدالتی فیصلوں پر بات کریں گے ججوں کے کنڈکٹ کو ڈسکس نہیں کریں گے، پاناما کے فیصلے میں بہت سخت الفاظ لکھے گئے اور ججز بہت آگے چلے گئے، پاناما فیصلے میں کچھ چیزیں نہ لکھی جاتیں تو بہتر ہوتا۔ پروگرام میں کچھ ماہرین قانون کی مختصر آراء بھی شامل کی گئیں۔نعیم بخاری نے کہا کہ آئین میں ججوں کے کنڈکٹ کے بارے میں گفتگو کرنا منع ہے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ آرٹیکل 68کے مطابق پارلیمنٹ میں ججوں کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جاسکتی ہے۔انور منصور ایڈووکیٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ججوں کے بارے میں کسی طور بحث نہیں کی جاسکتی صرف عدالتی فیصلے پر بات کی جاسکتی ہے۔بابر اعوان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ججوں اور فوج کے حوالے سے بحث نہیں چھیڑی جاسکتی ہے، ججوں کے کنڈکٹ پر صرف سپریم جوڈیشل کونسل میں بحث ہوسکتی ہے۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ججوں کے کنڈکٹ پر بات کرنے پر دستوری قدغن ہے اس کے ساتھ کچھ اخلاقی باتیں بھی ہیں، اگر ہم اپنے اداروں کو خود تباہ کریں گے تو اچھی بات نہیں ہے۔میزبان حامد میر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کل قومی اسمبلی میں جو خطاب کیا اس کا جواب آج چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران دیدیا ہے، توقع کی جارہی ہے کہ شاید وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اب اپنے بیان پر نظرثانی کریں گے، وزیراعظم کے کل قومی اسمبلی میں بیان کی بنیاد اخباری خبریں تھیں یعنی وہ خود بھی کنفرم نہیں تھے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کو صحیح رپورٹ کیا گیا ہے، لیکن اخباری خبروں کی بنیاد پر وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیدیا ہے جس کے بعد بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا پارلیمنٹ اور عدلیہ کا تصادم ہونے والا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت سپریم ادارہ ہے، آئین کا آرٹیکل 66 پارلیمنٹرینز کو کسی خوف کے بغیر بحث کرنے کی آزادی دیتا ہے، پارلیمنٹ میں کی جانے والی کسی بات پر عدالت پارلیمنٹرین کو نہیں چھو سکتی ہے، آئین کا آرٹیکل 68 واضح ہے کہ پارلیمنٹ میں جج کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جاسکتی ہے، اس آرٹیکل کی تشریح میں قانونی ماہرین کی اکثریت کہتی ہے پارلیمنٹ میں جج یا عدلیہ کے بار ے میں کوئی با ت نہیں کی جاسکتی، میری رائے میں پارلیمنٹرینز قانون سازی کرتے ہوئے جیوڈیشل انسٹیٹیوشن کے بار ے میں بات کر سکتے ہیں لیکن کسی جج کے کنڈکٹ پر بات نہیں کرسکتے ہیں، نواز شریف نے جو بیانیہ اختیار کیا ہے کہ ججوں نے کسی مقصد کے تحت پاناما کیس کا فیصلہ کیا پارلیمنٹرینز یہ بات پارلیمنٹ میں نہیں کرسکتے ہیں، اگر کوئی پارلیمنٹرین ججوں کے کنڈکٹ پر بات کرے تو اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کو انہیں روکنا چاہئے۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے حکمت عملی کے تحت جلسوں میں بیانات کے ذریعہ عدالت کو نواز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کی، اس میں ناکامی کے بعد ن لیگ کی کوشش ہے کہ اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں لایا جائے اور سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ کیخلاف آرٹیکل 68کے تحت کارروائی کروائی جائے ،اگر ایسا ہوگیا تو پارلیمنٹ اور عدلیہ میں سنگین اختلاف ہوسکتا ہے، آرٹیکل 68کی خلاف ورزی پر پارلیمنٹرینز کیخلاف کارروائی صرف اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کرسکتا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میڈیا کے اوپر سنسرشپ نہیں ہوسکتی ہے، میڈیا اگر سیاسی لیڈروں کی تقاریر کو ایڈٹ کر کے پیش کرنے لگا تو اس کا سیاستدانوں پر کنٹرول بڑھ جائے گا، اپنی تقاریر میں عدلیہ سے متعلق متنازع بات نہ کرنا بولنے والوں کی ذمہ داری ہے، اظہار کی آزادی پر پابندیاں ختم کرنا پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے لیکن اس کا مقصد کسی ایک شخص کو فائدہ پہنچانا نہیں ہوناچاہئے،عدالتوں کا کام زیادہ تر سن کر فیصلے لکھنا ہوتا ہے، عدالت کیس کو سمجھنے کی کوشش کے دوران آبزرویشن دیتی ہے، ججوں کو نپی تلی اور ایک تناظر میں آبزرویشن دینی چاہئے۔جاوید عباسی نے کہا کہ وزیراعظم اور چیف جسٹس نے جو باتیں کہیں وہ ایک ہی طرف گئی ہیں، وزیراعظم اور ہم سب چاہتے ہیں کہ تمام ادارے آئین میں متعین کی گئی حدود میں رہ کر کام کریں، آئین میں مقننہ کے ساتھ ایگزیکٹو اور عدلیہ کیلئے بھی حدود متعین کردی گئی ہیں، عدالت اگر سمجھتی ہے کوئی قانون آئین سے متصادم ہے تو اس پر اپنے فیصلے کے ذریعہ بولیں، معاملات وہاں خراب ہوئے جہاں ریمارکس آنے شروع ہوگئے، پہلے عدالتوں کی طرف سے اتنے ریمارکس نہیں آتے تھے، ہمیں دوسرے اداروں اور لوگوں کے متعلق بات کرتے ہوئے اجتناب کرنا چاہئے، پاناما کے فیصلے میں بہت سخت الفاظ لکھے گئے اور ججز بہت آگے چلے گئے، پاناما کیس فیصلے میں کچھ چیزیں نہ لکھی جاتیں تو بہتر ہوتا۔ جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں عدالتی فیصلوں پر بات کی جاسکتی ہے، پارلیمنٹ آرٹیکل 184/3اور 199 اور ایسے ہی دیگر کئی چیزوں پر بات کرنا چاہے تو اس پر پارلیمنٹ کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اداروں کے درمیان لڑائی نہیں ہونی چاہئے، پارلیمان کے فیصلوں کو جب بھی تبدیل کیا گیا اس نے بڑا دل کیا، عدالتی فیصلے پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔ جاوید عباسی نے کہا کہ اگر ہم اپنے خلاف فیصلے پر بات کریں اور اسے توہین عدالت قرار دیا جائے تو یہ مناسب نہیں ہے، پارلیمان نے اب یہ بحث چھیڑدی ہے تو تمام چیزوں پر کھل کر بات ہونی چاہئے، پارلیمنٹ میں عدالتی فیصلوں پر بات کریں گے ججوں کے کنڈکٹ کو ڈسکس نہیں کریں گے، ہماری بحث یہ ہے کہ کس ادارے کے کتنے اختیارات ہیں اور سب ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کررہے ہیں یا نہیں کررہے، آرٹیکل 9میں تبدیلی کے معاملہ پر پارلیمنٹ میں بات ضرور ہونی چاہئے۔جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ عدالت کو اس آدمی کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے جس نے چھ مہینے میں پیمرا آرڈیننس پر نظرثانی کرنے کی بات کی تھی لیکن عمل نہیں کیا، عدالتی آبزرویشنز اتنی زیادہ آرہی ہیں کہ اس سے لوگوں تک صحیح پیغام نہیں جارہا، سپریم کورٹ کی آبزرویشنز ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ کسی کا دل دکھے یا کوئی سیاسی تنازع کھڑا ہوجائے۔

تازہ ترین