• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انصاف کا بول بالا تحریر:سید علی جیلانی…سوئٹزرلینڈ

زینب کے درندہ صفت قاتل کو4بار سزائے موت کی خبر سن کر اطمینان حاصل ہوا اور یہ خوشی ہوئی کہ اتنی جلد اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا۔ ابھی عوام کا ایک سوال باقی ہے کہ یہ شخص عمران اکیلا اس میں شامل نہیں تھا بلکہ ایک پورا نیٹ ورک موجود ہے، اس کے لیے ایک جے آئی ٹی بھی منائی گئی ہے، اس تحقیق کو آگے بڑھنا چاہیے، اس میں ملوث تمام بااثر لوگوں کو بھی قانون کے شکنجے میں لانا ضروری ہے تاکہ اس قسم کے واقعات کو جڑ سے اکھاڑا جاسکے۔ زینب بچی نے ہر پاکستانی کا دل جھنجھوڑ دیا۔ میڈیا کو جگایا، سول سوسائٹی کو جگایا، حکومت کو جگایا، عدالتوں کو جگایا کہ خدارا اب پاکستان میں ظلم کو رکنا چاہیے اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔والدین کا سب سے بڑا مطالبہ کہ مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے، کا عوام انتظار کررہے ہیں۔ کیا زینب کے قاتل کو سزا ملنے سے ہمارا معاشرہ ٹھیک ہوگیا، کیا قانون کی بالادستی ہوگئی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آج کسی وڈیرے کا لڑکا ہوتا تو کیا اسی طریقے سے کیس کا جلد فیصلہ آجاتا۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے یہ ملک پاکستان بڑی جدوجہد سے بنایا اور سوچا تھا کہ اس ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوگا۔ مساوات کا نظام نافذ ہوگا۔ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، وزیر ہو یا شہری، سب کے لیے قانون برابر ہوگا، لیکن اگر آپ پاکستان کی تاریخ دیکھ لیں جو بھی اس ملک میں حکومت آئی، اس نے قانون کو اپنی جوتی سمجھا اور حکمرانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ یہ بات رہی کہ ہم کچھ بھی کرلیں، کرپشن کرلیں، کسی کو قتل کروا دیں، کسی کی عزت پر ڈاکہ ڈال دیں، قانون ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ آئی جی، ڈی آئی جی اور حتیٰ کہ جج ہماری مرضی کے لگے ہوئے، وہ ہمارے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیں گے، یہ ہی وجہ ہے کہ آج تک نہ کسی حکمران کو سزا اور نہ ان کی اولادوں کو سزا ہوئی۔ تمام پولیس کو اور اداروں کو حکمران اپنا غلام بنالیتے ہیں، کیا ہمارے بزرگوں نے ملک اسی لیے بنایا تھا، ہرگز نہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم مذہبی، سیاسی، ثقافتی، خودمختاری کے ساتھ ایک آزاد وطن میں سانس لیں سکیں، ہمارا معاشرہ بگڑ چکا ہے۔ چوری، ڈاکہ زنی، قتل و غارت گری، ملاوٹ، مردہ گوشت فروخت کرنا، دوائیوں میں ملاوٹ وغیرہ وغیرہ کرنے والے لوگ دندناتے پھرتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ہم باثر ہیں۔ قانون ہمارا کچھ نہیں کرسکتا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ قانون کو سخت کرنا ہوگا اور پولیس کو سیاسی مقاصد کے استعمال کے بجائے قانون کے جوابدہ ہونا چاہیے۔ اس زینب کے کیس میں دیکھ لیں کہ زینب بے چاری کتنے دنوں سے لاپتہ تھی، لیکن پولیس خاموش تھی۔ پھر مظاہرے شروع ہوئے اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوموٹو ایکشن لیا، تو پھر پولیس حرکت میں آئی، اگر2015ء میں رونما ہونے والے واقعہ جس میں متعدد لڑکے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز سامنے آتیں، حکومت کوئی ایکشن لیتی، تو شاید زینب کا واقعہ نہ ہوتا۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ذہنی بیمار نہیں ہوتے، بلکہ پوری ایک پلاننگ کے تحت بچوں کو ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، بلکہ یہ ایک کاروبار ہے، جن میں بااثر لوگ ملوث ہوتے ہیں، اب ہر پاکستانی کی ایک ہی دل سے آواز ہے کہ70سال پاکستان کو بنے ہوئے ہوگئے ہیں، اب ظلم ختم ہوجانا چاہیے۔ اس ملک میں انصاف ہونا چاہیے۔ جتنے بھی کیس التوا میںپڑےہیں ان کو جلد سے جلد نمٹانا چاہیے۔ زینب کے کیس میں اہم حصہ فرانزک لیب کا ہے، جس میں ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ اب ہم ڈی این اے ٹیسٹ سے ملزم کو آسانی سے پکڑسکتے ہیں، اگر عدالتیں ہر کیس اسی تیزی سے نمٹائیں گی تو عوام کا اعتماد عدالتوں پر بڑھے گا۔ تمام پاکستانی قوم میڈیا کو اور خصوصاً ’’جنگ‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ زینب کے کیس کو انہوں نے اجاگر کیا۔ عوام کی ترجمانی کی اور عوام کے جذبات کو حکمرانوں، اداروں اور چیف جسٹس تک پہنچایا۔ قوم آپ کو سلام کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ آيندہ بھی اسی طرح قوم کے ہر مسئلے پر آپ سب اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

تازہ ترین