• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اہم اجلاس رضا چوہدری

jang.paris@janggroup.com.pk
پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے شروع ہونے والے طویل دورانیہ کے اجلاسوں کے مختلف ایجنڈےہیں یہ جی سیون ممالک کے ایما پر ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو کسی بھی قسم کےخطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لئے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کئے جائیں۔اس تنظیم کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا شامل ہیں، البتہ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے۔ قبل ازیں پاکستان 2012 تا 2015 اس فہرست کا حصہ رہ چکا ہے۔مگر امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’امریکہ پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دے چکا ہے مگر اس کے بدلے میں صرف دھوکہ اور فریب ملا ہے‘۔ صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بھی پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک پالیسی ساز ادارہ ہے جو سیاسی عزم پیدا اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی کرتا ہے،ہر تین سال بعد اس کا اجلاس منعقد ہوتا ہے ۔ فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ہونے والے حالیہ اجلاس کے لئے امریکہ اور اُس کے یورپی اتحادیوں نے قرارداد جمع کرائی تھی۔ ٹاسک فورس کا اجلاس طلب کرنے کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایسی جوہری طاقت کی حامل ریاستوں کی نگرانی کی جائے جو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے علاوہ منی لانڈرنگ کے ضوابط کا احترام نہیں کرتیں۔ مگر بھارت، امریکہ اور برطانیہ کے گٹھ جوڑ کا مقصد پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی واچ لسٹ میں شامل کرنا ہے کیونکہ امریکہ کے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینیئل کوٹس نے پاکستان کے انتہا پسندوں سے تعلقات اور جوہری ہتھیاروں میں اضافے کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ انتہاپسند جن کی پاکستان پشت پناہی کر رہا ہے افغانستان اور انڈیا میں حملے کرتے رہے ہیں جس سے خطے میں کشیدگی پھیل رہی ہے۔دنیا کو لاحق عالمی خطرات کو اجاگر کرنے کے لئے سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سالانہ اجلاس میں ڈینیئل کوٹس کا کہنا تھا: جن انتہاپسند تنظیموں کی پاکستان پشت پناہی کر رہا ہے وہ پاکستان میں قائم اپنی محفوظ پناہ گاہوں کو افغانستان اور انڈیا میں حملوں کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کریں گے جو امریکی مفادات کے خلاف ہے۔برطانیہ ایف اے ٹی ایف کی رپورٹوں میں کی گئی تمام تر سفارشات کے برخلاف پاکستان کو ترقی کرتے دیکھناچاہتاہے جبکہ عالمی برادری کے دیگر ارکان بھی اس حوالے سے پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہیں ، اجلاس میں پاکستان کی جانب سے حال ہی میں کئے گئے اقدامات کاجائزہ لیاجائے گا۔ بین الاقوامی برادری کی سفارشات پر پاکستان نے حال ہی میں کچھ اقدامات کئے ہیں جن میں بعض شدت پسند پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگرایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں کوئی سخت قرارداد منظور کرلی گئی تو پاکستان کو اس سال جولائی میں کٹھمنڈو میں ہونے والے ایشیا بحرالکاہل گروپ کے مجوزہ اجلاس میں زیادہ سخت کارروائی کاسامنا کرنا پڑسکتاہے۔ خیال کیا جاتاہے کہ اس ادارے کے رکن چین، روس اورترکی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں پراطمینان کا اظہار کریں گے۔پاکستانی حکام کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان کو فہرست میں شامل کرلیاگیا تو پاکستان کو بین الاقوامی اداروں سے قرض کے حصول میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان اوربرطانیہ کے درمیان بہترین تعلقات قائم ہیں اور سیکورٹی کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہیں لیکن دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے برطانیہ کی جانب سے امریکی موقف کی حمایت کے بعد پاکستان سفارتی کوششوں کو مزید فعال کیا جارہا ہے،،فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے رکن ممالک کو اپنے مؤقف پر قائل کرنے کیلئے سفیروں کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں،۔وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام اس ضمن میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے رکن ممالک کے سفارتی نمائندوں سے رابطوں میں مصروف ہیں اور انہیں اپنے مؤقف کے حق میں قائل کرنے کی کوششوں کررہے ہیں۔ کیونکہ لسٹ میں نام سے پاکستانی بینکوں کو بین الاقوامی سطح پر لین دین میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ قرارداد اور اس کے ممکنہ نتیجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امریکی حکومت کی وسیع تر اسٹریٹیجی کی عکاس ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے حاصل ہونے والے ممکنہ فیصلے سے پاکستان پر معاشی دباؤ بڑھایا جائے گا۔اگر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو اپنی ’’واچ لسٹ‘‘ میں شامل کر لیا تو پاکستان کی معیشت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔اجلاس کے دوران پاکستان کا نام واچ لیسٹ میں ڈالنے کی بجائے وارنگ جاری کرتے ہوئے اس قراداد کو چھ ماہ تک ملتوی کئے جانے کا بھی امکان ہے کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستان کو کمزور کیا گیا تو اسے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی قرار دیا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے والوں کے ایجنڈے پر توجہ دینے کی بجائے اداروں پر تنقید ، ذاتی مفادات اور شریک حیات کے انتخاب میں مصروف ہیں ۔

تازہ ترین