• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اگر میں قتل کر دیا گیا‘‘ کی تاریخی داستان میں چانڈیو قبیلے کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا ہے، چانڈیو جاگیر لاڑکانہ اور دادو اضلاع کے متصل علاقہ میں لاکھوں ایکڑوں اور میلوں تک پھیلی ہوئی تھی، چانڈیو قبیلہ سندھ کے سب سے بڑے قبیلوں میں سے ہے، پنجاب اور بلوچستان میں بھی چانڈیو کی وسیع آبادیاں موجود ہیں، کئی صدیوں سے چانڈیو کے سردار کو ’’غیبی خان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے۔ نواب محمد خان بگٹی اور نواب خان بخش خان مری کی طرح چانڈیو کا سردار بھی حقیقی نواب ہے۔ وہ ایک سچا نواب ہے۔ ان کے صاحبزادے کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ نواب یا نوابزادہ کہلوائے۔ سلطان احمد خان چانڈیو کے دادا نواب غیبی علی نواز خان چانڈیو سندھ میں برطانوی حکمرانی کے سو سالہ عرصے میں چوتھے اور آخری نائٹ تھے، انہیں 1946ء میں نائٹ کے خطاب سے نوازا گیا۔
ایک ہفتے کے اندر ہی میری نظر بندی کے دوران ایئر مارشل نور خان مجھے ملنے کے لئے آئے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے آنے والے واقعات کے بارے میں اشارے بھی دیئے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ سلطان احمد چانڈیو کی ٹریول ایجنسی کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے لیکن ان کے اس کاروبار کے بارے میں پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ سلطان احمد چانڈیو سے ملیں گے اور انہیں کہیں گے کہ اپنے ماتحتوں کو قابو میں رکھیں۔ میں نے ان کا اشارہ سمجھ لیا۔
اگر میں قتل کر دیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کی وہ کتاب ہے جسے انہوں نے ’’مقدس درندوں‘‘ کی مسلط کردہ سرخ آندھیوں اور تندرو راتوں میں تحریر کیا۔ اس میں چانڈیو سرداروں کی وفاداری بشرط استواری پر ان کا دل دھڑکتا اور روح سرشار تھی۔ چانڈیوز کا یہ حوالہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے کارکن رہنما اور بھٹوز کے نظریاتی شہ بالے سینیٹر مولا بخش چانڈیو کی وہ تین کتابیں ہیں جو انہوں نے حال ہی میں مجھے بھیجی ہیں۔
کتابوں کے نام ہیں:۔ (1) ذکر زنداں جو (جیل ڈائری)
(2) فکر بھٹو
(3) ’’میری سیاسی باتیں۔۔ بھٹو کے افکار‘‘
سینیٹر مولا بخش چانڈیو کو ٹی وی پر اکثر سننے کا موقع ملا، ایسا لگتا ہے جیسے بی بی شہید کو جب برداشت، کا عالمی ایوارڈ دیا جا رہا تھا مولا بخش چانڈیو بھی کہیں ان کے آس پاس ہی تھے اور ’’برداشت‘‘ کی سدا بہار پھوار سے وہ بھی فیض یاب کئے گئے، بہرحال اب ان کی ’’سیاسی بائبل‘‘ کا رخ کرتے بھٹو کے افکار پر نظر ڈالتے ہیں۔
-oپیپلز پارٹی کا جھنڈا ہر صوبے کے اسکول پر اونچا لہرا رہا ہے۔
-oدبائو ایک کیڑا بھی ہے اور بلا بھی، اگر آپ اسے پائوں کے نیچے مسل دیں تو یہ کیڑا ہے لیکن اگر آپ جھجک کر پیچھے ہٹ جائیں تو یہ بلا بن جاتا ہے۔
-oپاکستان کی فوجی جنتا مجھے اس لئے ہلاک کرنا چاہتی ہے کہ میرے مرنے کے بعد وہ مجھے خراج عقیدت پیش کرے۔
-oمیری سیاست رومانس اور شاعری کا امتزاج ہے۔
-oتاخیر یا تذبذب کا نتیجہ لازمی طور پر جزوی بھوتوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
-oیا تو سویلین حکومت ہے یا فوجی جنتا کی حکومت ہے، درمیان کی کوئی شے موجود نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کی بنیاد ریت میں دھنس رہی ہے۔
-oمیرا وقت جیل میں گزر جائے گا، آپ کا وقت دفتر میں گزر جائے گا تاریخ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں، ان کو بدلا نہیں جا سکتا۔
-oدائمی دشمنی نامی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں۔
-oمیں یہ نہیں دیکھنا چاہتا، چونکہ میں موت کی کوٹھڑی میں ہوں، اس لئے ساری دنیا موت کی کوٹھڑی میں ہو!
-oاُس گِرہ کو کاٹ دیا جائے جو گلے کا پھندا بن کر رہ گئی ہو۔
-oمیں یہ سمجھتا ہوں عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں، یہ کوئی سیاسی سلوگن نہیں بلکہ میرا غیر فانی استعارہ ہے۔
-oنظریات، اصول، تحریریں، تاریخ کے دروازہ سے باہر ہی رہتی ہیں۔
-oایک ایسے ملک کو متوازن پالیسیوں پر نہیں چلا سکتے جہاں سبھی قسم کی برائیاں اپنی بگڑی ہوئی شکل میں موجود ہوں۔
-o’’انسان دس لاکھ ٹن سے بھی زیادہ طاقتور ہے‘‘، ننگے پیر لوگوں کے نقش قدم پر چلو، ایک غریب بچے کے بالوں میں جوجوں ہے وہ تمہارا ہتھیارہے، ایک کاشت کار کی مٹی کی جھونپڑی تمہاری زہریلی گیس ہے، عوام کی قوت کا اندازہ مل کی بنائی ہوئی گہری لکیر سے اور کارخانہ کے نکلتے ہوئے دھوئیں سے لگا سکتی ہو، نظریہ کا رسم الخط ایک فاقہ زدہ انسان کی چیخوں سے پیدا ہو گا۔ (بے نظیر کے نام خط)
-oمیں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کے بجائے فوج کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دوں گا۔
-oمیں نے ان کو خون چوسنے والا کہا جنہوں نے پنجاب کے عوام کا استحصال کیا، اسلام کے نام پر انہوں نے اسلام کو دھوکا دیا ہے۔ پنجاب کے نام پر پنجاب کے عوام کو دھوکہ دیا ہے۔
-oبکھری ہوئی جنگ جارح کو مہنگی پڑتی ہے اور وہ تیزی سے فتح حاصل کرنے کی توقع نہیں کر سکتا۔
-oمیں جانتا ہوں پانسہ پلٹ جاتا ہے اور کل کے شہنشاہ آج کے فقیر بن جاتے ہیں میں نپولین بونا پارٹ کا مداح ہوں۔
-oاگر ہم بھاگے تو ہمیں مرتے دم تک بھاگتے رہنا ہو گا۔
-oسب سے زیادہ خوبصورت بات یہ ہے کہ ایک مرے ہوئے شخص کے لئے مرنے میں فتح بھی جائے گی اور مرنے والے کی قبر پر فتح و نصرت کے پھول اُگیں گے۔
-oاگر عوام میرا سر چاہتے تو میں بلا پس و پیش ان کے سامنے اپنا سر جھکا دیتا، کسی لمحہ میں انتقال کے باعث جو کچھ ہو جاتا ہے اور ایک گندی سازش کے درمیان، جو مہینوں تک چلتی رہے، بہت زیادہ فرق ہوا کرتا ہے، ان میں سے ایک تو زلزلہ یاکوہ آتش فشاں کے پھٹنے کی طرح ہے جبکہ دوسری صورت آہستہ آہستہ زہر دینے کے مترادف ہے یا کسی زنجیر میں جکڑے ہوئے انسان پر سرخ چیونٹیاں چھوڑ دینے کے مترادف!
-oمیں ان اہل قریش کی طرح ہوں جنہوں نے دولت اور امارت کو ٹھکرا کر رسول اکرم ﷺ کا ساتھ دیا اور اسلامی انقلاب برپا کیا۔
-o’’اقتدار ہی دولت ہے‘‘ کا مطلب ہے امیر بننے کے لئے انسان کے پاس اقتدار ہونا چاہئے یا برسراقتدار لوگوں کی حمایت حاصل ہونی چاہئے۔
-oرجعت پسند جماعتیں آسانی کے ساتھ ٹوٹ جایا کرتی ہیں، کیک اور حلوے پر ان کا شیرازہ منتشر ہو جاتا ہے۔ صحیح معنوں میں انقلابی جماعت نہ ٹوٹتی ہے نہ تقسیم ہوتی ہے، عوام فاقوں کو تقسیم نہیں کرتے، املاک کے حصے بخرے کرنا ممکن ہے لیکن غربت کی تقسیم ممکن نہیں۔
-oتیسری دنیا بڑے بوٹ والے فوجی ڈاکٹیٹروں کے لئے فٹ بال کا میدان بن گئی ہے۔
-oانقلاب تاریخ کی قوس قزح ہے، انقلاب کا یہ مطلب نہیں کہ ایک بینڈ ماسٹر اپنے بینڈ سے محروم ہو جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی آسمان میں ممکن ہوا تو ایک بار اور جھانکیں گے۔

تازہ ترین