• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ، توہین عدالت نوٹسز خارج، جواب اطمینان بخش

Todays Print

اسلام آباد ( رپورٹ : رانا مسعود حسین )عدالت عظمیٰ نے جنگ ، جیو میڈیاگروپ کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران مسول علیہان میر شکیل الرحمان ایڈیٹر انچیف روزنامہ جنگ /دی نیوز ،میر جاوید رحمان پرنٹر و پبلشر اوررپورٹر احمد نورانی کی جانب سے داخل کئے گئے جوابات کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے دونوں نوٹسز واپس لینے کے بعد معاملہ نمٹا دیا ہے ۔مسول علیہ ،احمد نورانی کو پہلا نوٹس 19جولائی 2017کو جے آئی ٹی عملدرآمد بنچ کے سربراہ ،جسٹس اعجاز افضل خان کو ایک خبر کی تصدیق کے لئے فون کرنے جبکہ دوسرا نوٹس 24جنوری 2018کو عدالت کے حکم پر آئی ایس آئی کی جانب سے جے آئی ٹی کے معاملات کی دیکھ بھال سے متعلق خبر شائع کرنے پر جاری ہوا تھا ، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز توہین عدالت کیس کی سماعت کی تومسول علیہان میر شکیل الرحمان اوراحمد نورانی عدالت میں پیش ہوئے ،احمد اینڈ قاضی ایڈوکیٹس اینڈ لیگل کنسلٹنٹس کے سینیئر پارٹنر ،جام آصف محمود ایڈوکیٹ ، مسول علیہ احمد نورانی ، بہزاد حیدر ایڈوکیٹ مسول علیہ میر شکیل الرحمان جبکہ صائم ہاشمی ایڈوکیٹ مسول علیہ میر جاوید رحمان کی جانب سے پیش ہوئے ،جنگ کے وکلاء نے بند لفافے میں جواب براہ راست جسٹس کھوسہ کو دیا ۔ جام آصف ایڈوکیٹ نے بنچ کے اراکین کو مسول علیہ احمد نورانی کی جانب سے سربمہر لفافے میں جواب پیش کیا ،(جس میں بیان کیا گیا تھا کہ وہ اور ان کے ادارے کی سینیئر مینیجمنٹ تہہ دل سے عدالت کا احترام کرتی ہے ،اور انہیں امید ہے کہ فاضل عدالت ان کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کی قائل ہوجائے گی کہ ،جس اسٹوری پر یہ تنازع اٹھا تھا وہ صحافتی اقدار کے اعلیٰ ترین معیار پر پوری اترتی ہے ،انہوں نے اپنے جواب میں فاضل عدالت سے انصاف کی فراہمی کایقینی بنانے کے لئے توہین عدالت کا نوٹس اور شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی تھی) ،جام آصف ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ میرے موکلین نے کسی قسم کی کوئی توہین عدالت نہیں کی ہے بلکہ ہمیشہ ہی عدالتوں کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، میرے موکل فاضل عدالت کے رحم و کرم پر ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ مسول علیہ احمد نورانی کی جانب سے رجسٹرار اور عملدرآمد بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان سے رابطہ کی کوشش کا مقصد ،انہیں آئی ایس آئی کے حوالے سے ملنے والی معلومات سے پیدا ہونے والے تاثر اور ابہام کو ختم کرنا تھا،فاضل بنچ نے جواب کا بغور جائزہ لیا اور اسے تسلی بخش قرار دیا ،جسٹس دوست محمد خان نے فاضل وکیل سے مسول علیہ احمد نورانی پر قاتلانہ حملہ کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت سے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ آج تک ایک انچ بھی پیشرفت نہیں ہوئی ہے ، پولیس نے کہا ہے کہ وہ حملہ کرنے والے نامعلوم افراد کو تلاش نہیں کرسکتی ہے ،جس پر فاضل عدالت نے حیرت کا اظہار کیا ، جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ پریس والے ان کو ہائی پیڈسٹل پر رکھتے ہیں تو پولیس کیا کرے ؟انہوں نے کہا کہ آپ کے جواب میں ایک جگہ پر پریمئر کا لفظ لکھا گیا ہے ،یہ لفظ صرف اور صرف ملک کے وزیر اعظم کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ،کسی اور کے لئے یہ لفظ آئین اور قانون میں کہیں بھی استعمال نہیں ہوا ہے ،خود ہی تاثر لیکر لکھ دیا ہے؟آپ کوئی بھی تاثر لیکر کچھ بھی لکھ دیں گے ؟ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اس ملک میں آئین و قانون چلے گا یا کسی اور کی مرضی چلے گی ،ہم نے فیصلے جاری کرتے وقت ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کو مد نظر رکھنا ہے ،پہلے ہی ہر طرف تباہی و بربادی ہوچکی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ مجھے تکلیف ہوئی ہے جو آپ نے یہ لفظ لکھا ہے ،بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیوز اور ویوز میں فرق ہوتا ہے ، بدقسمتی سے آپ نے ایک تاثر پر یہ خبر بھی چلادی کہ عملدرآمد بنچ کی ہدایت پر آئی ایس آئی جے آئی ٹی کے معاملات کو چلا رہی ہے ،انہوں نے کہا کہ خبروں کی اشاعت میں بعض اوقات کچھ اوپر نیچے بھی ہوجاتا ہے ،لیکن عدلیہ کا احترام نہایت ضروری ہے ِتوہین عدالت کے قانون کا مقصد کسی کو لازماً سزا دینا ہی نہیں ہے ،بلکہ صرف اور صرف عدلیہ کے وقار اور احترام کو برقرار رکھنا ہے ،عدالت کے استفسار پر فاضل وکیل نے کہاکہ عدالت نے احمد نورانی کی 6جولائی 2017کو چھپنے والی خبر پر بھی شوکاز نوٹس جاری کر رکھا ہے ، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ وہ معاملہ بھی ختم ہوچکا ہے ، عملدرآمد بنچ بھی ختم ہوچکا ہے اور کیس کا فیصلہ بھی آچکاہے ،اس لئے ہم دونوں نوٹسز کو واپس لے رہے ہیں، جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ درست معلومات تک رسائی اس ملک کے 22 کروڑ عوام کا حق ہے ، اور اسی وجہ سے قانون نے آپ کو درست معلومات کی فراہمی کی اجازت دی ہے ، جسٹس آصف کھوسہ نے ایک بار پھر جواب کا جائزہ لیتے ہوئے کہاکہ مسول علیہ نے آئی ایس آئی کے چند افسران کے ساتھ ملاقات کے دوران پیدا ہونے والے تاثر کے حوالے سے رجسٹرار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو جواب نہ ملنے پر انہوں نے عملدرآمد بنچ کے سربراہ جج کو لینڈ لائن پر فون کیا دونوں کے مابین انتہائی نرمی سے گفتگو ہوئی اور برادر جج نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کریں گے ، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے میں کسی قسم کی سنسنی پھیلانے کی ضرورت نہیں تھی،ایک تاثر کو خبر بنانے سے غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں ،آپ نے کہا ہے کہ آپ آئند ہ احتیاط سے رپورٹنگ کریں گے ۔یاد رہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پانامہ پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے دوران 10جولائی17 کو روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان اور پرنٹر و پبلشر میر جاوید رحمان کو حسین نواز کی جانب سے ویڈیو ریکارڈنگ روکنے اور ان کی تضحیک پر مبنی تصویر لیک کرنے کے حوالے سے دائر کی گئی دو درخواستوں سے متعلق 20جون کے عدالتی فیصلہ کی غلط اشاعت پر توہین عدالت میں نوٹس جاری کیا تھا جبکہ دی نیوز کے سینئر رپورٹر احمد نورانی کو آئی ایس آئی سے متعلق خبر کے حوالے سے معلومات لینے کے لئے جسٹس اعجا زافضل خان کو لینڈ لائن پر فون کرنے پر توہین عدالت میں نوٹس جاری کرتے ہوئے تینوں مسول علیان کو آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہو کر جواب داخل کرنے کا حکم جاری کیا تھا ،جس پر تینوں مسول علیان نے کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت میں پیش ہو کر اپنے جواب میں موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے کسی قسم کی کوئی توہین عدالت نہیں کی ہے ،ادارہ جنگ عدلیہ کی آزادی ، وقار اور آئین و قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتا ہے اور ہم عدلیہ کے فاضل ججز کی تضحیک کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ۔

تازہ ترین