• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ سماعت 21-02-2018 : میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس :۔ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحت ’’پوری کائنات پرحاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اس اختیار کا پاکستان کے عوام کی جانب سے اللہ کی متعین کردہ حدود میں استعمال ایک مقدس ذمہ داری ہے۔ جبکہ ریاست کو چاہئے کہ وہ عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے اختیارات کو بروئے کار لائے۔ جس میں اصول جمہوریت، آزادی، مساوات، تحمل و درگزر اور سماجی انصاف جیسا کہ اسلام بیان کرتا ہے، اس کا مکمل مشاہدہ ہونا چاہئے۔ جس میں رتبے کی برابری، قانون تک رسائی، سماجی، اقتصادی و سیاسی انصاف، آزادی فکر، اظہار، عقیدہ، ایمان، عبادت اور تعلق قانون اور عوامی اخلاقیات سے مشروط ہے۔(2) آئین کا آرٹیکل 17 ہر شہری کو تنظیم سازی کا حق دیتا ہے۔ جو قانون کی جانب سے لاگو مناسب پابندیوں سے مشروط ہے۔ جو پاکستان کی حاکمیت اور یکجہتی اور امن عامہ کے مفاد میں ہو۔(3) عوام کے چنے ہوئے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ ایک طرف اور قانون کی حکمرانی دوسری طرف آئین کے تحت جمہوریت کی بنیاد ہے۔ آئین کے آرٹیکلز 62، 63 اور 63-A بزنس کو یقینی بنانے کے لئے مربوط نیٹ ورک ترتیب دیتے ہیں۔(4) پارلیمنٹ کے لئے انتخابات سے متعلق تمام قوانین اور کارروائی میں شرکت آئین کے آرٹیکل 17 میں دی گئی شرائط سے مشروط ہے۔(5) آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت جس کی نمائندگی بھی ہو، وہ منجملہ ارکان پارلیمنٹ کی جانب فرائض کی ادائیگی پارلیمنٹ کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ اس کردار کی بجاآوری میں پارٹی سربراہ میں اس کے مطابق ضروری صلاحیت موجود ہونی چاہئے۔ اسے آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت نااہلیت سے ماوراء ہونا چاہئے۔(6) الیکشن ایکٹ 2017 پارٹی سربراہ کو متفرق افعال کی انجام دہی کا اختیار دیتا ہے جس کے تحت اس کا پارلیمنٹ کے انتخابی عمل سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی موجودگی سے متعلق امور بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔(7) لہٰذا تفصیلی وجوہ جو بعدمیں قلم بند ہوں گی، ان آئینی پٹیشنز کی اجازت دی گئی۔ یہ قرار دیا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017ِ کی دفعات 203 اور 232 کو آئین کے آرٹیکلز 62، 63، 63-A میں درج شرائط سے ملا کر پڑھا اور سمجھا جائے۔(8) نتیجتاً یہ قرار دیا گیا کہ کوئی بھی شخص آرٹیکل 62 کے معیار پر پورا نہیں اترتا یا آرٹیکل 63 کے تحت کسی بھی عنوان سے پارٹی سربراہ کا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔ جب تک اس کی یہ حیثیت جاری رہتی ہے۔(9) مندرجہ بالا ڈیکلریشن کے نتیجے میں لئے گئے تمام اقدامات، جاری احکامات، مدعا علیہ نمبر 4 کی جانب سے پارٹی سربراہ کی حثیت میں دی گئی ہدایات اور دستاویزات 28 جولائی 2017 کو ان کی نااہلیت کے بعد قانون کی نظر میں تصور کی جاتی ہیں کہ وہ کبھی لئے گئے اور نہ جاری ہوئے۔ اس کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ مدعا علیہ نمبر۔4 (میاں محمد نواز شریف) کا نام صدر اور مدعا علیہ نمبر 3 پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کی حیثیت سے تمام متعلقہ ریکارڈ سے ہٹا دیا جائے۔
تازہ ترین