• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصلےسے ملکی سیاست میں ہلچل، حکومت اور ن لیگ سر جوڑ کر بیٹھ گئی

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میںمیزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد نواز شریف اب پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے، وزارت عظمیٰ سے بھی سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا اور پارٹی صدارت سے بھی سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیدیا،نواز شریف نے پارٹی صدارت کے حوالے سے جتنے بھی فیصلے کیے، جو اقدامات اٹھائے، جو ہدایات دیں، جو دستاویزات جاری کیں وہ سب غیرقانونی قرار دیدیئے گئے، اس فیصلے نے ملکی سیاست میں ہلچل مچادی ہے، حکومت اور ن لیگ سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے، جمعرات کو نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کا امکان ہے جہاں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی موجود ہوں گے، اس پیشی کے بعد نواز شریف جو ردعمل دیں گے وہ بہت اہم ہوگا، نواز شریف جو پہلے ہی سخت تنقید کررہے ہیں اب کیا کہیں گے، سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے نواز شریف کا نام پارٹی صدارت سے نکال دیا، ن لیگ کے صدر کا عہدہ خالی قرار دیدیا گیا ہے، ہم نے الیکشن کمیشن سے پوچھا پارٹی صدارت کے حوالے سے تو فیصلہ ہوگیا لیکن عدالت نے نواز شریف کے پارٹی صدر کے طور پر تمام احکامات کالعدم کردیئے ہیں تو سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کے امیدواروں کے حوالے سے کیا فیصلہ کیا گیا ہے تو الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج کا فیصلہ سامنے رکھ رہے ہیں کہ نواز شریف پارٹی صدر نہیں رہے باقی فیصلوں کا اعلان جمعرات کو کریں گے، ترجمان ن لیگ کے مطابق پارٹی نواز شریف کی رہبری اور قیادت میں آئین، جمہور کی حکمرانی کی جدوجہد جاری رکھے گی، سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے جس کی جمہوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، فیصلے سے پاکستان میں جمہوری اقدار کو نقصان پہنچے گا، اس فیصلے سے جنرل ایوب اور جنرل مشرف کا آمرانہ، جمہوریت کش اور کالا قانون بحال ہوگیا، ماضی میں بھی متنازع فیصلوں سے سیاسی جماعتوں سے قیادت چھیننے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئیں، نواز شریف کی قیادت کسی عہدے اور منصب کی محتاج نہیں ہے، مریم نواز نے بدھ کے فیصلے کو بھی نواز شریف کی کامیابی قرار دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ نواز شریف آپ جیت گئے ہیں، انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے آپ کے خلاف فیصلے نہیں بلکہ آپ کی سچائی کی گواہی اور موقف کے حق میں ثبوت پیش کررہے ہیں،مریم نواز نے اپنی پروفائل پکچر بھی تبدیل کرلی ہے جس میں نواز شریف کی تصویر ہے اور لکھا ہے میں بھی نواز ہوں۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ن لیگ سیاسی حکمت عملی کے ساتھ قانونی حکمت عملی پر بھی غور کررہی ہے کیونکہ اس فیصلے کے بعد کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، سینیٹ کے انتخابات پر اس عدالتی فیصلے کا کیا اثر پڑے گا، کیا نواز شریف کے بطور پارٹی صدر جاری کیے گئے ٹکٹس بھی منسوخ ہوجائیں گے، اگر ایسا ہوا تو کیا ن لیگ سینیٹ انتخابات سے باہر ہوجائے گی یا سینیٹ انتخابات ہی ملتوی ہوجائیں گے۔شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ عدالت کا جو اگلا فیصلہ 62/1Fکے تحت آنا ہے جس کو عدالت نے محفوظ کیا ہے وہاں پر نواز شریف کی پارٹی صدارت کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا کہ وہ کتنے عرصہ تک نہ پارلیمنٹرین بن سکتے ہیں اور نہ ہی پارٹی سربراہ بن سکتے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نواز شریف نے چکوال، لودھراں اور سینیٹ انتخابات کیلئے جو ٹکٹس جاری کیے اس پر عدالتی فیصلے کے بعد سوالات کھڑے ہورہے ہیں، یہ بہت اہم ہے کہ کیا ماضی میں بھی عدالت نے ایسا ہی کیا ہے کہ ماضی کے سارے فیصلے کالعدم دیدیئے ہوں، مارچ 2009ء میں جب عدلیہ بحال ہوئی تو جسٹس افتخار چوہدری چیف جسٹس بنے،بعد میں سپریم کورٹ نے ہی جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے حوالے سے واضح کیا اور لکھا کہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی تعیناتی غیرآئینی تھی لیکن ان کی جانب سے جتنے بھی انتظامی اقدامات اٹھائے گئے اور فیصلے کیے گئے وہ متاثر نہیں ہوں گے یعنی ان کے فیصلوں اور اقدامات کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا، مزید لکھا کہ انہوں نے جو حلف لیے وہ بھی متاثر نہیں ہوں گے، اسی طرح جب اپریل 1993ء میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی تو واضح کیا کہ قومی اسمبلی، وزیراعظم اور کابینہ بحال کی جاتی ہے جسے فوری طور پر کام کا حق حاصل ہوگا مگر آئین کے آرٹیکل 58/2B کے تحت تمام اقدامات جو اٹھارہ اپریل 1993ء کے فیصلے کے مطابق کیے جیسے نگراں کابینہ کی تشکیل اب ان فیصلوں کی قانونی حیثیت نہیں لیکن نگراں کابینہ نے اس مدت میں ریاست کو چلانے کے لئے آئین کے تحت جتنے بھی اقدامات کیے وہ برقرار رہیں گے، سپریم کورٹ کے یہ دونوں فیصلے واضح کررہے ہیں کہ عدالت نے حکومت بحال کردی، نگراں حکومت ختم کردی مگر نگراں حکومت کے اقدامات برقرار رکھے، اسی طرح سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کی تعیناتی کو غیرآئینی قرار دیا مگر ان کے اقدامات کو کالعدم قرار نہیں دیا، مگر اس بار عدالت نے واضح لکھا ہے کہ اٹھائیس جولائی کے بعد نواز شریف کی طرف سے لیے جانے والے تمام اقدامات اور فیصلوں کو غیرقانونی قرار دیاجاتا ہے،الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کی رائے یہ ہے کہ ن لیگ کو سینیٹ الیکشن کے لئے نئے ٹکٹ جاری کرنا پڑیں گے اور الیکشن کمیشن مجاز ہے کہ انتخابات میں تاخیر کردے یا ن لیگ کو دوبارہ امیدوار نامزد کرنے کیلئے کہہ دے۔ وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی پارٹی صدارت سے متعلق فیصلہ نواز شریف نے کرنا ہے، نواز شریف پہلے بھی ایسی صورتحال میں شہباز شریف کو اپنی جگہ پارٹی صدر اور وزیراعظم بنانے کی بات کرچکے ہیں جس کی پارٹی نے بھی مکمل حمایت کی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کو پابند کرسکتے ہیں لیکن اس کا عوام کے دلوں پر کوئی اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے عوام کی رائے کو متاثر نہیں کرسکیں گے، نواز شریف ہر پارٹی کارکن، ووٹر اور عوام کے دلوں میں بستے ہیں وہاں سے انہیں نہیں نکالا جاسکتا،نواز شریف کیخلاف فیصلے انہیں مزید بلندیوں پر پہنچادیں گے، پارٹی کی نواز شریف کے ساتھ جذباتی وابستگی اب کمٹمنٹ کا روپ دھارنے جارہی ہے، ن لیگ کی سیاست ، معاملات اور پارٹی صدر نواز شریف کی لائن کے مطابق چلیں گے۔ رانا ثناء اللہ کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے آمروں کے اقدامات کو تحفظ دیا گیا مگر نواز شریف کے اقدامات کو کالعدم قرار دیدیا گیا، اس فیصلے پر تبصرہ بھی ہوگی اور ہر رخ پر بات ہوگی، نواز شریف کیخلاف تعصب اسی سے نظر آجاتا ہے کہ جو رعایت آمروں اور غداروں کو دی گئی وہ نواز شریف کو نہیں دی گئی، عدالتی فیصلے کے مطابق تو نواز شریف نے سینیٹ کے جو ٹکٹ جاری کیے وہ جاری ہی نہیں ہوئے، اس کا مطلب ہے ن لیگ کے وہ امیدوار آزاد حیثیت میں منتخب ہوجائیں گے، عدالت ان سینیٹرز کے دلوں پر نواز شریف کے قبضے کو کیسے ہٹائے گی۔طلال چوہدری نے کہا کہ نوا زشریف جو ہیں وہ بھی کسی بھی قانون کسی آئین،صدارت ،وزارت،و زارت عظمیٰ کے مرہون منت نہیں ہیں وہ ایک پاپولرلیڈر ہیں، پاپولر لیڈ کے ساتھ اگر عوام ہے تو پھر اسے اور کوئی چیز نہیں چاہئے ہوتی کیا مسلم لیگ نواز کا صدر جو ہے وہ نواز شریف کا نہیں ہوگا یا نواز شریف کے صدر رہنے سے ن لیگ جو ہے وہ اس کے کنٹرول میں رہے گی ، جس کا نام ہی مسلم لیگ نواز ہے تو اس کا صدر کون ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو سیدھی طرح کہہ دیا جائےکہ نواز کو نا انتخابات میں حصہ لینے دیں گے نہ کسی جمہوری پراسس کا حصہ بننے دیں گے اس لئے کہ نواز شریف کو روکا نہیں جاسکتا، اس کی عوامی شہرت کم نہیں ہو پارہی، نواز شریف کو ہرانے کیلئے کوئی بھی سیاسی طریقہ کامیاب نہیں ہو پارہا تو گزارش یہ ہے کہ یہ تو پھر ایک مذاق ہوگا اور اس طرح کی بات ملک کو نقصان دے گی ۔ طلال چوہدری نے کہا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے بڑا اور محترم ادارہ پارلیمنٹ ہے،پارلیمنٹ آئین بناتی ہے جو creator ہے وہ creatureکے نیچے نہیں ہوسکتا یعنی آئین کے نیچے پارلیمنٹ ، پارلیمنٹ کے نیچے آئین ہوتا ہے وہ اس آئین کو بناتی ہے اور اس میں جو مرضی تبدیلی کرسکتی ہے اور یہ بات کہ پارلیمنٹ کے جو بنیادی حقوق ہیں وہ بھی تو پارلیمنٹ نے بنا ئے ہیں جب چاہیں گے جو حقوق چاہیں گے جس طرح کی چیز چاہیں گے پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے اگر پاکستان میں اگر کوئی نئی چیز لے کر آنی ہے تو یہ اور بات ہے لیکن یہ تمام چیزوں جو ہیں دنیا بھر میں جمہوری اصول ہیں ان کے خلا ف چل رہی ہیں ، دنیا بھر میں آپ دیکھ لیں پارلیمنٹ قانون بناتی ہے وہ جو بھی کچھ ہو اس پر پھر عملدرآمد ہوتا ہے۔ طلال چوہدری نے کہا بہت ساری رٹ بہت سارے فیصلے بہت ساری چیزیں نواز شریف کو نقصان نہیں دے رہیں نواز شریف کی شہرت اس کے بیانیے کو مضبوط کررہی ہیں وہ اگر نقصان دے رہی ہیں تو اداروں کو دے رہی ہیں اور اگر اداروں کو نقصان ہوگا تو وہ پورا نہیں ہوگا اور میں ایک اور بات کہوں اس طرح نواز شریف مائنس نہیں ہوگا،آپ یقین کریں نہیں ہوگا آپ کیسے لودھراں روکیں گے کیسے چکوال روکیں گے ، نوا زشریف جس کا ہاتھ کھڑا کریں گے اس پر کسی زاہد بکر کے دستخط ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔طلال چوہدری نے کہا کہ میں آپ کو ایک بات بتادوں نواز شریف کی صدارت وزارت کا مرہون منت نہیں ہے وہی جس کا ہاتھ کھڑا کرے گا وہی ایم پی اے اور ایم این اے بنے گا،وزیر اور وزیرا عظم بنے گا ۔طلال چوہدری نے کہا کہ جب تک نواز شریف اور اس جماعت کا نام نواز لیگ ہے کوئی زاہد بکر اس کا صدر ہو یا وزیر اعظم وہ نواز شریف کی مرضی سے ہوگا اور نواز شریف کے کئے گئے فیصلوں پر وہی دستخط ہوں گے اس کے کئے گئے فیصلوں پر ہی عوام مہر لگائیں گے مجھے یہ بتائیے کہ اس وقت پاکستان متحمل ہوسکتا ہے اس طرح کی چیزوں کا پاکستان اور مسائل ہیں دہشتگردی کی لسٹ میں ہم جانے والے ہیں،پاکستان کا ہمسایہ ملک اس کے پیچھے چڑھا ہوا ہے۔ماہر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ ایک بات تو ذمہ داری سے بتادوں وہ یہ ہے کہ عدالت نے یہ نہیں کہا کہ سینیٹ انتخابات میں تاخیر ہوگی یا وہ delay ہوں گے یہ چیز میں آپ کو ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں بہر حال اگر کسی نے غیر قانونی کام کیا ہے تو اس کا خمیازہ بھی پھر وہی بھگتے گا مگر کیا پھر الیکشن کمیشن کے پاس اختیار رہ جاتا ہے یا الیکشن کمیشن کے پاس بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ تاخیر کردے اور ن لیگ کو کہے کہ19فروری تھی ذرا ٹائم دیتے ہیں آپ نئے امید وار دے دیں ۔کمیشن کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے اور یہ اس فیصلے کو دیکھنا پڑے گا کہ کیا ان کے امید وار دستبردار ہوجائیں یا ان کے پارٹی ٹکٹس ختم ہوجائیں گے یہ دیکھنا پڑے گا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ میں پھر کہہ رہاہوں اس بات سے قطع نظر کون سی جماعت ہے اور کون نہیں ایم پی ایز جو منتخب ہوئے ہیں وہ عوام نے کئے ہیں، ان کی representationکو سینیٹ میں الیکٹ کرنے کا حق ہے جب تک تفصیلی فیصلہ نہیں آتا اس وقت تک یہ کہنا کہ عدالت ایک بری جماعت کی جوrepresentationہے اس کو اس فیصلے کے تحت سینیٹ سے محروم کردے گی وہ ایک مشکل بات ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ گزشتہ دس ماہ سے پاکستانی سیاست میں کچھ الفاظ کی گونج ہے جو عدالت کی طرف سے آئے، گاڈ فادر ، سسیلین مافیا ، اپوزیشن جماعتیں ، عمران خان، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری سب ہی نواز شریف پر ان الفاظ کا استعمال کر کے بھرپور مہم چلاتے رہے اور نوا ز شریف عدلیہ کے خلاف ان الفاظ کا استعمال کر کے بھرپور مہم چلاتے رہے، یہ گزشتہ دس ماہ سے چل رہا ہےماہر قانون علی احمد کردنے کہا کہ کچھ عرصے سے عدالتی فیصلے لوگوں کو ذہنی پیچیدگی اور پریشانی میں مبتلا کررہے ہیں، عدالت سے نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی آج ان کی پارٹی صدارت کو بھی لے ڈوبی، عدلیہ براہ راست ملک کی سیاست پر اثر انداز ہورہی ہے، فیصلے نے صرف ن لیگ میں ہی نہیں سیاست اور جمہوریت سے متعلق تمام لوگوں میں بے چینی کو جنم دیا ہے، موجودہ صورتحال میں عوام سمجھتے ہیں کہ سینیٹ کے الیکشن اب گئے، آج اس خدشہ کوتقویت حاصل ہوئی کہ سینیٹ انتخابات نہیں ہوسکیں گے ، سیاسی جماعتوں کو اپنے فیصلے عدالتوں میں نہیں عوام میں جاکر کرنے چاہئیں، سیاستدان عدالتوں میں جائیں گے تو سیاسی جماعتوں پر عدالتوں کا اپر ہینڈ ہوگا۔علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 8کے تحت مقننہ اگر بنیادی حقوق کے خلاف قانون بناتی ہے تو وہ خود بخود ختم ہوجائے گا، جب پارلیمنٹ بنیادی حقوق کیخلاف کوئی قانون نہیں بناسکتی تو سپریم کورٹ ایک شہری کے ایسے بنیادی حق کو کیسے ختم کرسکتی ہے جس کے تحت وہ کوئی ایسوسی ایشن بناسکتا ہے، جو کام پارلیمنٹ نہیں کرسکتی آج سپریم کورٹ نے کردیا، آئین کو جس طرح چھیڑا جارہا ہے اس میں نقصان ہوگا۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بطور پارٹی صدر نواز شریف کے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دینے سے بہت پیچیدگیاں پیدا ہوں گی بلکہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پیچیدگی پید اہوگئی ہے، آرٹیکل 203کی ترمیم کا معاملہ ابھی تک پارلیمنٹ میں زیربحث تھا اور ابھی ختم نہیں ہوا تھا، یہ ترمیم سینیٹ میں ہوئی لیکن قومی اسمبلی میں مسترد ہوگئی، اس پر پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن ابھی ہونا تھا لیکن لوگ گندی لانڈری لے کر عدالت پہنچ گئے، یہ معاملہ پارلیمنٹ میں سیٹل ہونا چاہئے تھا لیکن اسے عدالت لے آئے،عدالت سے اس پر فیصلے کے ساتھ پیرا نائن بھی آگیا جس میں بطور پارٹی صدر تمام احکامات کو کالعدم قرار دیا گیا، ہم اس فیصلے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے ہیں، یہ آرٹیکل 17 کے تحت نظر نہیں آتا ہے، آرٹیکل 17کو آرٹیکل 62اور 63 کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا ہے، سیاسی پارٹی بنانا کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے۔ماہر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف کے بطور پارٹی صدر تمام فیصلے خطرے میں ہیں، نواز شریف کی طرف سے سینیٹ کے پارٹی ٹکٹس کالعدم ہوگئے ہیں جبکہ اس دوران ن لیگ جو ضمنی انتخابات جیتی وہ بھی خطرے میں آگئے ہیں، تفصیلی عدالتی فیصلے میں اگر تشریح نہیں ہوئی تو ن لیگی امیدوار آزاد حیثیت میں سینیٹ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے، الیکشن کمیشن سینیٹ انتخابات کیلئے ن لیگ سے دوبارہ امیدوار نامزدگی کرنے کا نہیں کہہ سکتا، عدالتی فیصلے میں اگر ایسی کوئی ہدایت ہوتی تو الیکشن کمیشن ایسا کرسکتا تھا لیکن چونکہ ایسی کوئی ہدایت نہیں ہے تو الیکشن کمیشن ہرگز ایسا نہیں کرے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق تمام بنیادی حقوق public morality (عوامی اخلاقیات) کے پیرائے میں لاگو کیے جائیں گے، اس حوالے سے 2011ء میں ورکرز پارٹی کا کیس موجود ہے جس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جتنے بھی بنیادی حقوق ہیں ان کا public moralityسے ہٹ کر فیصلہ نہیں ہوتا، 2010ء کا ڈاکٹر مبشر حسن کے این آر او کیس میں واضح بھی کیا گیا کہ جب بھی morality کی بات ہوتی ہے تو وہ انسان کے کردار سے متعلق بات ہوتی ہے، سپریم کورٹ اٹھائیس جولائی 2017ء کے فیصلے میں ایک شخص کو کہہ چکی ہے کہ وہ ایماندار اور امین نہیں ہے توجب public morality آرٹیکل 17میں داخل ہوگی تو ایسا شخص جس کا ڈیکلریشن موجود ہے تواسے پارٹی سربراہ نہیں بنایا جاسکتا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان میں چوری کا قانون نہ ہو اور کہا جائے کہ جو بھی شخص سب سے بڑی بینک ڈکیتی کرے گا اسے فلاں پارٹی کا صدر اس لئے بنادینا چاہئے کیونکہ آرٹیکل 17میں لکھا ہوا ہے اور public morality کو نہیں دیکھنا چاہئے تو اگر آپ اس قسم کی بات کریں گے تو بہت غلط نتائج سامنے آئیں گے۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ 2011ء میں ورکرز پارٹی کے کیس میں فیصلہ دے چکی ہے کہ آرٹیکل 17 public morality کے پیرائے میں دیکھی جائے گی۔  
تازہ ترین