• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطے میں امن کیلئے پاک، افغان مشترکہ حکمتِ عملی ناگزیر خصوصی تحریر…رانا زاہد اقبال فیصل آباد

پاکستان نے قیام کے بعد سے ہی افغانستان سے دوستانہ اور خوشگوار تعلقات کے قیام کی ہر ممکن کوشش کی، اس سے ہر موقع پر تعاون کیا، ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت فراہم کی، پچاس لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی جو اب بھی 30لاکھ پاکستان میں موجود ہیں، روسی جارحیت کے خلاف افغان مزاحمت کاروں، امریکہ اور اس کے حامیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے بعد بھی پاکستان نے صبغت اللہ مجددی کی عبوری، طالبان ، صدر کرزئی اور اب اشرف غنی کی حکومت سے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور تعاون کر کے دوستی کا ثبوت فراہم کیا۔ لیکن امریکی حملے، طالبان حکومت کے خاتمے اور اتحادی فوجوں کی موجودگی کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت کو بد قسمتی سے نیٹو افواج، ذمہ دار امریکی حلقے اور اپنے پیش رو صدر کرزئی کی طرح صدر اشرف غنی پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر فاٹا کو انتہاپسندوں کی موجودگی کی مضحکہ خیز الزام تراشی کو اپنا معمول بنا چکے ہیں جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی اور کھچاؤ بھی پیدا کیا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان نے افغانستان کی طرف سے در اندازی کی الزام تراشی روکنے اور منشیات کی اسمگلنگ کے ازالے کے لئے لاکھوںپاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی تعیناتی کے علاوہ 1200چیک پوسٹیں بھی قائم کی ہیں جب کہ افغانستان نے بھارت کو پاک افغان سرحد سے ملحقہ شہروں میں جابجا قونصل خانے قائم کرنے کی اجازت دے کر ان قونصل خانوں کو "را" کے دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کا کردار ادا کرنے میں بھرپور معاونت کی ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے سرحد آر پار منقسم خاندانوں کے افراد کی غیر قانونی آمدو رفت روکنے کے لئے بارڈر پر باڑ لگانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان نے فاٹا، دیر بالا، چترال، خیبر اور مہمند ایجنسی کے علاوہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے صرف طاقت کے استعمال ہی کو اپنا لائحہ عمل قرار نہیں دیا بلکہ مذاکرات کے دروازے بھی بند نہیں کئے ہیں اور جو بھی تشدد کا راستہ ترک کر کے قومی دھارے میں شامل ہو نا چاہتا ہے اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ پائیدار امن کے قیام کے لئے مذاکرات، اقتصادی، سماجی اور سیاسی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج شرپسند ہتھیار ڈال رہے ہیں۔افغانستان کے ساتھ تاریخی، سیاسی، مذہبی اور بالخصوص دونوں ملکوں کے ملحقہ قبائلی علاقوں کے درمیان مشترکہ ثقافتی، معاشرتی، لسانی اور مذہبی اقدار و تعلقات بلاشبہ دونوں ملکوں کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان و افغانستان حکومت اور عوام مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں اور اس خطے میں پاک افغان دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانے اور ترقی و خوشحالی کی جانب مثبت پیش رفت میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیں۔ اس کے لئے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ اور بالخصوص پاکستان کے خلاف بے بنیاد، مضحکہ خیز الزام تراشی اور اس کے پسِ پردہ عوامل کا خاتمہ افغان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ افغان حکمرانوں کو افغانستان میں نیٹو افواج اور افغان حکومت کے خلاف ہونے والی عوامی مزاحمت کے حوالے سے افغان عوام کے مزاج، تاریخ، حکومت سازی میں اکثریتی گروپوں کو نظر انداز کر کے ایک اقلیتی گروپ کو ایوانِ اقتدار میں بٹھانے اور بالخصوص نیٹو افواج کی طرف سے بے گناہ اور پر امن افغان شہریوں کو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی آڑ میں نشانہ بنانے کے منفی اثرات اور عوامی ردِ عمل کو ایک لمحہ کے لئے بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ محض طاقت کا استعمال اور پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششیں تیز کرنا ہوں گی کیونکہ دونوں ملکوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور انسانیت کے لئے سب سے بڑے چیلنج غربت و افلاس، بے روزگاری، گرانی، دہشت گردی، انتہا پسندی ایسے سنگین مسائل کے حل کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان مثبت تعاون و اشتراکِ عمل سے عوام کا مقدر بدل سکتا ہے۔ افغانستان کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ دونوں ممالک کی ترقی و بہبود اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک اسلام آباد اور کابل آپس میں مل کر باہمی مفادات پر مبنی ایک جامع، مربوط اور پائیدار حکمتِ عملی تشکیل دے کر اس پر پورے خلوص سے عمل پیرا نہیں ہونگے۔ چونکہ دونوں ملکوں کے باشندے دہشت گردی کی وجہ سے مصائب و مشکلات میں مبتلا ہیں اس لئے انہیں یہ احساس کرنا چاہئے کہ اب الزام تراشی کے پرانے رویوں کو ترک کر کے آگے بڑھنا چاہئے ۔ اگر گزشتہ 17سال کے حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میںآجاتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے سوا اور کوئی راستہ موجود نہیں اس لئے افغانستان کو پاکستان کے ایک خیر خواہ دوست، بھائی کی حیثیت سے پہچانا جانا چاہئے کیونکہ ہر دو ممالک کا استحکام ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام میں صدیوں پرانے جو تاریخی، تہذیبی اور مذہبی رشتے قائم ہیں بلا شبہ ان کا یہی تقاضا ہے کہ ان میں محبت و الفت کے تعلقات ہمیشہ برقرار رہیں تا کہ وہ ہر مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں۔ لہٰذا اسے امریکہ کی دہری پالیسی اور کبھی حکمرانوں کی چالوں میں آ کر پاکستان دشمنی پر مبنی پالیسی نہیں اپنانی چاہئے بلکہ افغانستان کی قیادت کو چاہئے کہ بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اور پاکستان کے مفادات کے لئے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرے۔

تازہ ترین