• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری،سبکدوش وزیراعظم نواز شریف کیخلاف فیصلوں کی بھرمار

اسلام آباد (محمد صالح ظافر ،خصوصی تجزیہ نگار) سبکدوش وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلوں کی بھرمار ہورہی ہے اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے ان کی درخواستیں یکے بعد دیگرےمسترد کی جارہی ہیں انہیں ایک متنازع مقدمے کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ سے محروم کردیا گیا پھر اس فیصلے کا حوالہ دیکر انہیں اپنی پارٹی پاکستان مسلم لیگ نون کی صدارت سے الگ کردیا گیا ہے۔ گزشتہ ستمبر میں انہیں پارٹی کا سربراہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور ملک کی پارلیمنٹ کے دو نوں ایوانوں نے اس مقصد کے لئے قانون سازی کی اور سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ملکی آئین میں شامل کئے گئے قانون کو ساقط قرار دیدیا گیا اس طرح نواز شریف پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک مرتبہ پھر صدر چن لئے گئے۔پارلیمنٹ کے دو نوں ایوانوں نے الگ الگ کثرت رائے سے وہ قانون منظور کیا جس سے ان کے پارٹی کا صدر بننے کی راہ ہمو ار ہوئی۔ بعد ازاں حزب اختلاف کی ایک پارٹی نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قانو ن کو مسترد کرکے منسوخ کرنے کی غرض سے پارلیمانی ایوان بالا سینیٹ سے مسودہ منظور کرالیا تاہم قومی اسمبلی نے اسے لائق اعتنا نہ سمجھا اور یہ مسترد کردیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ نون جس کے نام میں نواز شریف کا نام شامل ہے اس سے نواز شریف کو چھیننے کی کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں۔ بدھ کو اس سلسلے میں ایک بڑی مہم جوئی کانتیجہ برآمد ہوا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کے لئے مجال انکار نہیں کہ نواز شریف کی سرکردگی میں کامیاب ہونے والی پاکستان مسلم لیگ نون نے 2013ء میں اقتدار سنبھال کر ملک کو بے پناہ مشکلات سے نجات دلائی اور 2017ءختم ہونے سے پہلے پاکستان جو تنزلی کی جانب لڑھک رہا تھا ترقی کے زینے چڑھنے لگا۔ یہ بات پاکستان کے دشمنوں کے لئے سوہان روح تھی ایسے میں نواز شریف کے اندرون ملک مخالفین بھی دشمنوں کے ہم خیال ہوگئے اور انہوں نے نواز شریف سے اپنی عداوت اور نفرت کی تسکین کے لئے ان پر اوچھے وار کرنے شروع کردیئے پہلے انتخابی دھاندلی کا رونا رویا گیا دھرنے دیکر ترقی کی سرگرمیوں کو مسدود کیا گیا جب کچھ نہیں بنا اور وہ ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے تو پھر انہیں پاناما دستاویزات کا عذر مل گیا جس میں نواز شریف کا نام بھی شامل نہیں تھا اسے بنیاد بنا کر نواز شریف کی کردار کشی کے لئے طویل مہم چلائی گئی اور آخر میں عدالت عظمیٰ سے فیصلہ حاصل کرلیا گیا جس کے ذریعے انہیں اپنے بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے کے مضحکہ خیز الزام کی پاداش میں صادق اور امین تسلیم کرنے سے انکار کردیاگیا اور وہ نا اہل قرار پائے عوام اس پورے منظر کو دیکھ رہے تھے لیکن وہ بے بس تھے نواز شریف نے چار سال کے عرصے میں ہتھیلی پر سرسوں جما کر دکھادی تھی جسے عام شہری براہ راست دیکھ رہے تھے اور مطمئن تھے یہی وجہ ہے کہ وزارت عظمیٰ سے محروم کئے جانے کے بعد نواز شریف نے جس انتخابی معرکے میں حصہ لیا عوام نے انہیں کامیاب کرایا ان کی یہ سرخروئی ان کے مخالفین کے لئے مزید ناآسودگی کا باعث بن رہی تھی یہ لوگ ایک مرتبہ پھر عدلیہ کی دھلیز پر پہنچ گئے اور وہ چاہتےتھے کہ کوئی عدالتی فیصلہ نواز شریف کو جکڑلے تاکہ وہ میدان عمل میں سرگرم نہ رہ سکیں یہ طرفہ تماشا تھا کہ سیاست میں نواز شریف کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رکھنے والے ان کے مخالفین عوام کو اپنا ہم خیال بنانے میں لگاتار ناکام ہوتے چلے آرہے تھے نواز شریف کو مقابلے سے باہر کرنے کے لئے جتن کررہےتھے اس دوران نواز شریف ملک کے جس حصے میں بھی گئے عوام جوق در جوق انہیں سننے اور دیکھنے کے لئے پہنچتے رہے انہیں نواز شریف میں نجات دھندہ دکھائی دے رہا تھا ان کے مخالفین جن کے منہ سے مارےخوف جھاگ نکل رہی تھی ۔
تازہ ترین