تاریخ کے علاوہ ہم کس کس کے مجرم ہیں؟
ہمیں ایس ایم ظفر کی یہ بات بہت پسند آئی کہ تماشا دیکھنے والے تاریخ کے مجرم ہوں گے مجرمانہ غفلت لفظ تو چھوٹا سا ہے مگر جب یہ پورے معاشرے پر صادق آئے تو سمجھیں کہ پوری بستی تباہی کے دہانے پر، اگر اجتماعی اقرار جرم نہ کیا گیا اور ازالہ کرنے کی طرف سب نے رجوع نہ کیا پھر قرآن حکیم کی یہ لائن کہ پھر ہم نے انہیں اسفل السافلین یعنی ذلت و بربادی کی پاتال میں پھینک دیا اپنی دیواروں سے مٹا نہیں سکیں گے، اب یہ عالم ہے کہ کوئی کسی دوسرے کو ذمہ دار بھی قرار نہیں دے سکتا، یہ گھر تو سارے کا سارا آفتاب بن گیا، کس کس آفتابے کو وضو کے لئے کام میں لائیں، اور ہم تماشائی 70برسوں سے تماشائی ہیں، ہماری ناکامیوں ناکردنیوں کی بہار دیکھ کر تو مہرومہ ہوئے تماشائی کہتے ہیں کہ یہ گندمی ریاست اب کیلا ریاست ہو گئی ہے، کیا کریں، کوئی ہمیں کچھ بھی کہے ہم کسی بھی الزام کے لئے نا اہل تو نہیں، ایک لفظ ہوس بھی ہے جو اب ہماری بھری لغت میں اکیلا رہ گیا ہے، البتہ اس کے نتائج شمار میں نہیں آتے، کوئی قوم اپنی غلطیوں سے اس قدر آگاہ نہیں ہو گی جس قدر ہم باخبر ہیں، جب کوئی تاریخ کا مجرم ہوتا ہے تو وہ ہر اچھائی کو ختم کرنے کا مجرم ہوتا ہے، جرم کسی سے نہیں ہوتا سارے انسان خطا کے پتلے ہیں، بس خطا یہ ہے کہ ہم اپنی خطائوں کو دیکھ دیکھ خوش ہوتے ہیں، توبہ تو کجا ندامت بھی نہیں ڈھٹائی کے تاج بے سر کے دھڑوں پر سجائے رقص ڈھٹائی میں ایسے مست کہ ہمارے رنگ کا تو بھنگ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی، ہر برائی کو مان کر اپنے رب کو مانتے ہیں کیا وہ ہماری جانب ایک بھی نگاہ التفات ڈالے گا؟ اس نے معافی تلافی کرم رحم کے دروازے چوپٹ کھول دیئے ہم نے بند گلیوں کا رخ کر لیا، ہر شخص نے ہاتھوں میں سنگ اٹھایا ہوتا تو بھی اصلاح ہمارا رخ کر لیتی مگر ہم نے تو قانون، عدل، اخلاقیات، علم، دیانت، امانت صداقت سب کو ہاتھ میں لے لیا ہے، اب اگر یہ کہیں کہ تاریخ کے علاوہ ہم کس کس کے مجرم ہیں تو یہ بے جا تو نہ ہو گا۔
٭٭٭٭
حد چاہئے تعریف میں محبت کے واسطے
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق:نواز سپریم لیڈر، ماشاء اللہ وفور مدح سرائی میں اپنے لیڈرکا نام بھی بدل ڈالا اور میاں محمد نواز شریف کا نام نواز سپریم لیڈر رکھ دیا، ممکن ہے میاں صاحب کو بھی یہ نام پسند نہ آئے، لفظ سپریم کے ہم من حیث القوم بہت دلدادہ ہیں، ہماری ہر پراڈکٹ بھی سپریم ہوتی ہے، اب تو سپریم لیڈر اور قائداعظم میں صرف زبان کا فرق رہ گیا ہے، عدالت، سپریم، پارلیمنٹ سپریم، نواز شریف سپریم، آئین سپر اصفہانی چائے سپریم، ویسے آپس کی بات ہے ہم نے اللہ اور اس کے بندے میں فاصلہ مٹا نہیں دیا، سپریم یعنی احکم الحاکمین اور اللہ اکبر کی کبریائی اور بندے کی عاجزی و انکساری کہاں گئی، ہماری تمام اقسام کے عشاق سے درخواست ہے کہ وہ اپنے محبوب، قائد، صنم اور مال و دولت کی ضرور ستائش کریں مگر اتنی کہ جس کا وہ مستحق ہو اور لوگ ہمیں غلطی سے خوشامدی نہ کہیں اور نہ ہی ہمارے کسی ممدوح کو خوشامد پرست سمجھا جائے، بعض اوقات ہماری تعریف سے ہمارے ممدوح کی اصل پوزیشن میں کمی واقع ہوتی ہے، اس لئے اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے کہ یہ سیدھا سپریم قوت اور ہستی اللہ جل جلالہٗ کی طرف جاتا ہے اور جب ہم اس کے ہو جاتے ہیں تو سب ہمارے ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ وہ جو سر چڑھ کے بولے
برطانوی سرمایہ کار کمپنی:شہباز شریف نے لاہور میں شاندار کارنامہ انجام دیا، قبلہ خادم اعلیٰ!؎اک ہم ہی نہیں تنہا اس دنیا میں تیرے دیوانے ہزاروں ہیں، وطن کے ہر صوبے نے آپ کی تمنا کر کے مان ہی لیا تھا کہ اب سات سمندر پار بھی آپ کی حسن کارکردگی کے ڈنکے بج رہے ہیں، اگر شہباز شریف ایک چھوٹی سی توبہ کر لیں تو یہ سیدھے سیدھے ولی اللہ ہیں، اور ان کے دست حق پرست پر بیعت کی جا سکتی ہے، بلاشبہ پنجاب کو سیاحوں کے لئے سرمایہ کاروں کے لئے دلکش بنا دیا، جب اورنج ٹرین چلے گی تو پنجاب کا غریب بھی اس میں بیٹھ کر خود کو جاتی امرا میں محسوس کرے گا، عمران خان نے بھی ایسا کوئی کارنامہ خیبر پختونخوا میں انجام دیا ہوتا تو ہم بنی گالہ کا حوالہ دیتے مگر وہ تو اب سہرے کی اوٹ میں روحانیت کی دنیا میں ایسے کھو گئے ہیں کہ بقول شاعر؎
جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا
بریگزٹ کے باعث واقعتاً سرمایہ کار اب سی پیک کا رخ کرنے والے ہیں، میاں صاحب نکے نے پنجاب میں جو بھی کیا وہ نظر آ رہا ہے، معذرت کے ساتھ دوسرے صوبوں میں تو وزرائے اعلیٰ کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا، البتہ کہنے کو ان کے پاس بہت کچھ ہے، اگر خادم اعلیٰ پنجاب شہر لاہور سے مویشی گوبر، کچرا اور گندے پانی کے جوہڑ بھی باہر کر دیں تو ان کا جو پیرس خواب تھا شرمندہ تعبیر ہو جائے۔ وہ عقلمند اور مودب سیاستدان ہیں حکمران بعد میں، اپنے بڑے بھائی کا جتنا احترام وہ کرتے ہیں پنجاب میں چھوٹے بھائیوں نے بڑے بھائیوں کا احترام شروع کر دیا ہے،
دکھانے کے قابل نہیں ہے!
O۔چوہدری نثار! عدلیہ اور پارلیمنٹ کو آمنے سامنے لانے کے حق میں نہیں۔
آپ جس کے حق میں ہیں وہ بھی بتا دیں۔
O۔مولانا فضل الرحمان:سیاستدانوں کو عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے، پھر ججوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا۔
مولانا! محتاط رہیں کنٹیمپٹ لگ سکتا ہے، یہ آپ نے کیا فرما دیا؟
O۔ن لیگ کی طرف سے مشاہد حسین کو چیئرمین سینیٹ بنائے جانے کا امکان،
بڑا اچھا امکان ہے اسے ن لیگ جلد یقینی بنائے ورنہ مشاہد واپس چوری خانے جا سکتے ہیں۔
O۔عمران خان سے خاتون صحافی کا سوال:بھابی کو کے پی کا دورہ کب کرا رہے ہیں۔
جواباً خان صاحب مسکرائے، ظاہر ہے کے پی میں خٹک صاحب نے جو کشت زعفران اگا رکھی ہے وہ بھابی صاحبہ کو دکھانی چاہئے، مگر یہ مسکراہٹ بڑی معنی خیز ہے،
O۔خان صاحب تو اب یہی کہہ سکتے ہیں دلہن رانی سے؎
تجھے کیا دکھائوں میں دل کے سوائے
کہ میری سلطنت تو دکھانے کے قابل نہیں ہے