• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کرپشن کے خلاف بہتری مگر سست روی،ٹرانسپیرنسی

Todays Print

لاہور (خالد خٹک،فاروق اقدس) کرپشن پرسیپشنز انڈیکس (سی پی آئی) کے تازہ ترین اعداد و شمار میں پاکستان کو 180ملکوں کی فہرست میں 117ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ سی پی آئی کے 1995ء کے تفصیلی تجزیہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس عرصے میں پاکستان کی کرپشن سے پاک ملکوں کی فہرست میں خاص کر مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں بہتری آئی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے سی پی آئی کی 2017ء کی تازہ ترین رپورٹ میں انتہائی کرپٹ 100ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا 32ویں نمبرپر رکھا گیا ہے۔ 2012ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سی پی آئی انڈیکس کے مطابق پاکستان سو ملکوں میں سے 27واں کرپٹ ترین ملک تھا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ 2013ء کے بعد سے مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کے دور میں اس میں پانچ درجے بہتری آئی ہے۔ سی پی آئی انڈیکس میں چین، بھارت اور سری لنکا کا کرپٹ ممالک میں بالترتیب 41واں،40واں اور 38واں نمبر ہے تاہم کرپٹ ترین سو ممالک میں ایران کا 30واں، بنگلہ دیش 28 واں اور افغانستان کا 15واں نمبر ہے جہاں کرپشن کی صورتحال پاکستان سے بھی بدتر ہے۔ رواں سال سے عالمی سطح پر کرپشن کا اوسط 43 ہے کرپشن کے خلاف بہترین کارکردگی دکھانے والے ملکوں میں مغربی یورپ کا اوسط سکور 66 ہے۔ کرپشن کے حوالے سے سب سے زیادہ خراب کارکردگی سب صحارن افریقہ اور مشرقی یورپ کی ہے جن کا اوسط سکور32 جبکہ سینٹرل ایشیا ہے جس کا اوسط سکور 34ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے مجموعی طور پر نیوزی لینڈ کو کرپشن سےپاک 100ملکوں کی فہرست میں 89ویں نمبر پر رکھا ہے جبکہ کرپٹ ترین ممالک میں صومالیہ کا نمبر 180واں ہے جس کا سکور صرف 9 ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے نتائج کے تجزیہ کے مطابق جہاں صحافتی آزادی اور غیر سرکاری تنظیموں کے تحفظ کا خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے، وہاں رشوت ستانی کی شرح بدترین صورت حال اختیار کرچکی ہے۔ 1995ء میں جب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے پہلی بار سی پی آئی انڈیکس جاری کیا تھا، تو پاکستان تین کرپٹ ترین ممالک میں شامل تھا جہاں اس کا نمبر 43 ممالک میں سے 39واں اورجس کا سکور 2.25تھا۔ اس وقت سی پی آئی کے اعداد و شمار کے لئے صفر سے 10تک کا سکیل استعمال کیا جاتا تھا یہ سکیل 2011ء تک جاری رہا۔ 1996ء میں پاکستان کی پوزیشن مزید نیچے چلی گئی تھی جس کا اس وقت سکور 1.0 تھا اور وہ اس وقت 54ممالک کی فہرست میں صرف نائیجریا سے بہتر تھا۔ 1997ء سے 1999ء کے تین سال (جب محمد نوازشریف وزیراعظم تھے) کے دوران پاکستان کے سکور میں 2.5اور 2.7 میں بہتری آئی (سوائے 1999ء کے2.2سکور) اس سال اکتوبر میں فوج نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ ٹرانسپرنسی نے 2000ء میں پاکستان کو اپنے انڈیکس میں شامل نہیں کیا تھا۔ اگلے سال سکور 2.3تھا۔ انڈیکس میں پاکستان کا سکور دوبارہ 2.7 کے سکور کو نہ چھو سکا(جو نوازشریف کے 1998ء کے دور حکومت میں سب سے زیادہ تھا)2002ء سے 2007ء کے ق لیگ کے دور حکومت میں 2002ء میں پاکستان کا سکور زیادہ سے زیادہ 2.6 رہا۔ پیپلز پارٹی حکومت کے پہلے تین سال میں بھی پاکستان سی پی آئی کے 2.7 کے سکور کو نہ چھو سکا۔ 2012ء میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے صفر سے 100 تک کا نیا سکور قائم کیا جبکہ پاکستان کا سکور 27 ریکارڈ کیا گیا۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی 2017ء کی جاری سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ایک تہائی ملکوں میں بدعنوانی کے تدارک کی کوششوں کے باوجودان کی رفتار انتہائی سست ہے۔ بدعنوانی کےتدارک میں وقت لگتا ہے لیکن یہ رفتار اس حد تک سست ہے کہ گذشتہ چھ برس میں خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔بدعنوانی کے لحاظ سے رپورٹ میں پاکستان کو بدتر ملک قرار دیا گیا ہے، جہاں رشوت ستانی ہر سطح پر موجود ہے۔ یہاں تک کہ ایک سے 100 کے سکیل پر پاکستان کی سطح 98 جبکہ بنگلہ دیش 93 کی سطح پر ہے۔ایشیائی ملکوں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، کرغزستان، میانمار، نیپال، اور تاجکستان میں انتہائی درجے کی بدعنوانی ہے جس کے نتیجے میں وسیع شعبہ جات اور ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق، بدعنوانی میں پاکستان ایک سے100 کے سکیل پر 30، بنگلہ دیش 28، بھارت 40، افغانستان 15 جب کہ چین41 نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان ملکوں میں بدعنوانی کے خلاف کوششوں میں محدود پیش رفت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی اِن ممالک میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دینے کا ریکارڈ خاطر خواہ نہیں ہے۔پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر کمپنیاں رشوت ستانی کو اِن ملکوں میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں، عمل داری کے ضمن میں منی لانڈرنگ خطے کا ایک باعث تشویش معاملہ ہے جب کہ زیادہ تر ملکوں میں منی لانڈرنگ سے نبردآزما ہونے کے سلسلے میں ضابطے غیر تسلی بخش ہیں۔دوسری جانب ان ملکوں میں سرکاری رقوم کے انتظام میں عدم شفافیت کا عنصر عام ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بجٹ کے لیے مختص رقوم بہتر طور پر خرچ کی جائیں اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کی حتی الوسع ضمانت موجود ہو۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 75 فی صد لوگ جن کا زمین سے متعلق امور سے واسطہ پڑتا ہے، جب کہ پولیس سے تعلق میں آنے والے 65 فی صد حضرات کو رشوت ستانی کی شکایت ہے یہاں تک کہ ٹیکس آمدن، سرکاری اہل کار اور سیاسی پارٹیوں تک میں انتہائی بدعنوانی کی شکایات عام ہیں۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ گذشتہ عشرے کے دوران بھارت کے دفاعی اخراجات میں 147فی صد کا اضافہ دیکھا گیا اور پاکستان میں 107 فی صد جب کہ بنگلہ دیش میں 202 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی کاروبار کے حوالے سے غیر شفافیت برتی جا رہی ہے، جب کہ 2007ء میں فوجی کاروبار کی مالیت اندازاً 10 ارب ڈالر تھی۔ ادھر بھارت میں 2013ء میں فوج غیرقانونی طور پر گالف کورس چلا رہی تھی، جو سرکاری زمین پر واقع ہیں جب کہ بھارت کی فضائیہ کے اہل کار ناجائز شاپنگ مالز اور سنیما ہال چلارہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ فوج ملک کے قدرتی وسائل کا ناجائز اور بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ حاصل شدہ تجزیئے اور انڈیکس کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ملک جہاں صحافتی آزادی اور غیر سرکاری تنظیموں کے تحفظ کا خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے، وہاں رشوت ستانی کی شرح بدترین صورت حال اختیار کر چکی ہے۔’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے ملکوں میں جہاں بدعنوانی کی صورت حال ’’بدترین‘‘ ہے وہاں گذشتہ چھ برسوں کے دوران مجموعی طور پر ہر ہفتے ایک صحافی ہلاک ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پانچ میں سے ایک صحافی بدعنوانی کی خبریں دینے کی پاداش میں ہلاک کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ ایسے ملکوں میں اکثریتی معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔اس سلسلے میں 100 ملکوں میں سے برازیل کا نام لیا گیا ہے، جہاں گذشتہ چھ برسوں کے دوران 20 صحافی ہلاک ہوئے، جہاں بلد یا تی حکومت اور منشیات کے کاروبار کے جرائم عام ہیں۔ ادھر ’’فریڈم ہاؤس‘‘ کی 2016ء کی عالمی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سیاسی حقوق اور شہری آزاد یو ں کی صورت حال ابتر ہے۔ رپورٹ میں 180 ملکوں کو ’مبرا‘، جزوی طور پر ’’مبرا‘‘ اور ’غیر مبرا‘ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش اور تاجکستان کو ابتری کی مثال قرار دیا گیا ہے جب کہ قرغیزستان، نیپال اور پاکستان کو ’’جزوی طور پر مبرا‘ ‘ جب کہ افغانستان اور میانمار کو’ ’غیر مبرا‘ ‘درجے میں رکھا گیا ہے۔آئی این پی کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اندازِ سیاست پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی سیاست نفرتیں پھیلانے اور انسانی حقوق کیلئے خطرات کا موجب بن رہی ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکہ کے اندر اور امریکہ سے باہر لیے جانے اقدامات انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے امریکی صدر کو بھی اسی گروپ میں شامل کیا ہے جس میں مصر، روس، چین، فلپائن اور وینزویلا کے رہنمائوں کے نام شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف رہنما جیسا کہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، فلپائن کے روڈریگو، وییزویلا کے نیکولس مادورو، روس کے ولادیمر پیوٹن، امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جنگ پی سنگدلی سے لاکھوں افراد کے حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔سلیل شیٹی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چھ مسلمان ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی کو واضح طور پر نفرت انگیز حرکت قرار دیا۔ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی 400 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ دنیا کے 159 ممالک میں انسانی حقوق کے بارے میں پائے جانے والی تشویش کا خلاصہ بیان کرتی ہے۔میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف قتل عام کی خوفناک مہم۔ انسانیت کے خلاف جرائمʼ اور عراق، جنوبی سوڈان، شام اور یمن میں جاری جنگی جرائم۔امریکہ، روس اور پولینڈ میں خواتین کے حقوق کو دبانے کی کوشش۔چیچنیا اور مصر میں ہم جنس پرستوں کے خلاف کارروائی شامل ہیں۔

تازہ ترین