• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصلے مانیں ورنہ عدالتیں بند کردیں.... فکرفردا… اکبر دا د خان

ریاست پاکستان جس طرح آئینی اور حکومتی بحران سے گزر رہی ہے اس کی بڑی وجوہات طاقتور طبقے کی آئین اور قانون سے بالاتر زندگیاں گزارنے کی روش ہے۔ ملک کو کس طرح چلنا ہے اس کے لئے بنیادی اصول پارلیمنٹ نے طے کررکھے ہیں جن کی تشریح کا آخری اختیار عدالت عظمیٰ کے پاس ہے۔ آج کی صورتحال جہاں حکومتی جماعت کے قائدین کی ایک بڑی تعداد شریف فیملی کے چند ارکان کے خلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلے جس میں ان کے سابق وزیراعظم نااہل ہوئے، کو تسلیم نہ کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کی کھلے عام مخالفت کررہی ہے اور جج صاحبان کو دھمکیاں دے رہی ہے اس جارحانہ طرزعمل نے عوام کو ایک تشویشناک صورتحال سے دوچار کررکھا ہے۔ آج آبائی وطن جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اگر قیادت کا فقدان نہ ہوتا تو ایسے آئینی اور حکومتی بحرانوں سے ابتدائی مراحل پر ہی نمٹ لیا جاتا۔ شریف خاندان کے بڑوں کی سیاسی زندگیاں ہم سب کے سامنے ہیں۔ چالیس سال پر پھیلی ان کی اقتدار کے ایوانوں میں اعلیٰ ترین سطحوں پر موجودگی نے عوام کی زندگیاں بہتر کرنے کے لئے جو پالیسیاں بنائیں اور انہیں اپنی نگرانی میں مکمل کیا ان کے اثرات سے ایک ایوریج پاکستانی کی زندگی میں زیادہ بہتری نہیں آسکی ہے۔ جنرل (ر ) مشرف کا دس سالہ دور اور پی پی کا معقول مدت کا دورانیہ بھی ایوریج پاکستانی کی زندگیاں بہتر کرنے کے حوالہ سے درخشاں نہیں ہے۔ ان تمام ادوار میں وقت نے نہ تو سیاست کو زیادہ مچیور بنایا اور نہ ہی سیاسی نرسریوں پہ (سٹوڈنٹ یونینز) پابندیوں کی وجہ سے نیا سیاسی ٹیلنٹ سامنے آسکا، آج کی پاکستانی سیاست پر موروثیت زیادہ طاقتور شکل میں موجود نظر آرہی ہے اور تمام جماعتوں کے اہم قائدین پچاس اور ساٹھ کی دھائیوں  میں  ہیں۔ جن میں سے اکثریت مرکزی اور صوبائی سطح پر کئی باریاں لے چکی ہے۔ طاقتور اشرافیہ خواہ وہ سندھ کے وڈیروں کی شکل میں ہوں، بلوچستان میں حکومتی اہلکاروں کو گاڑیوں تلے روندنے والے سیاستدان ہوں، پنجاب میں  لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے والے ریاستی حکام ہوں اور جنہیں اعلیٰ ترین حکومتی قائدین کی سرپرستی حاصل ہو اور اس افسوسناک صورتحال میں مرکزی حکومت اعلی عدالتی نظام کو صرف اس لئے تہس نہس کرنے چل پڑے کہ انہوں نے اسی حکومت کی درخواست پہ کچھ معاملات سنے اور فیصلے دیئے جو ان کے خلاف آئے۔ یہاں طاقتوروں کے ایسے رویوں نے ملک کو اس مقام پہ لاکھڑا کردیا ہے جہاں ملک انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان غیر یقینی حالات میں جہاں حکومتی جماعت ہی ملک میں آئینی اور انتظامی افراتفری پیدا کرنے میں مرکزی کردار ادا کررہی ہے تاکہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں اور احکامات کے تحت چلتے کیسزپر عملدرآمد رک جائیں تو جمہوری نظام کی بقا کی خاطر ضرب اختلاف کی تمام جماعتوں کی یہ آئینی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ملکی آئین کو محترم مانتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑی ہوکر ملک کو عدم استحکام کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بن جائیں۔ عسکری قوتوں کیلئے نمٹنے کیلئے کئی محاذ پہلے سے کھلے ہیں۔ ان کی لئے یہ نیا محاذ جو ان کو اقتدار میں بھی لاسکتا ہے۔ ایک نیا ٹریپ بھی ہے۔ واضح ہے کہ کسی تصادم کیلئے ماحول تیار کیاجارہا ہے۔ ہمارا آئین انسانوں کی لکھی ایک قومی دستاویز ہے جس کے تحت اس ملک کے معاملات کو چلنا ہے۔ یہ نہ تو مقدس ہے اور نہ کوئی ایسی دستاویز ہے جس پہ بات نہیں ہوسکتی جس طرح ہمارا معاشرہ Evolotion( ایوولوشن) کے مراحل سے گزرتے ہوئے زیادہ مستحکم ہورہا ہے اسی طرح  جمہوری پراسس کے چلتے رہنے سے آئینی ڈھانچہ بھی بہتر رہے گا۔ حکومت اور شریف خاندان کی اعلیٰ عدلیہ اور پاکستانی عوام کے ایک بہت بڑے طبقہ سے براہ راست لڑائی کو نہ تو وہ اعلیٰ عدلیہ کے ان کے خلاف فیصلوں کو مانتے ہیں اور نہ ہی انہیں عوامی ناراضی کی پرواہ ہے وہ اپنی طاقت کے ذریعہ عدالتوں کو زیر کریں گے اور ووٹ بھی اپنی طاقت کے ذریعہ ڈلوالیں گے سے ایک ایسے معاشرہ کی تصویر ابھرتی ہے جو کسی خوفناک ٹوٹ پھوٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہر بڑا ادارہ دوسرے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جبکہ حالات تیزی سے بگڑرہے ہیں۔ اللہ کرے اعلیٰ عدالتوں میں جج صاحبان کے لئے بلاخوف وخطر معاملات نمٹانے کا ماحول قائم رہے۔ تمام دیگر متعلقین عدالتی پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے عدالتی احکامات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں۔ بڑے لوگوں کے ایسے اچھے رویے ہی عوام کے لئے مثالیں بنتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو ایک دوسرے کی عزت اور ملکی قوانین کا احترام کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔
تازہ ترین