• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیرمی کوربن کا ٹرمپ کو مشورہ ڈیٹ لائن لندن… آصف ڈار

11/9اور پھر 7/7 کے حملوں کے بعد مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں اور مقامی کمیونٹیز کے درمیان تعلقات میں ایسی خلیج حائل ہوئی کہ جو اب تک موجود ہے اور مسلمان مقامی لوگوں کو یہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں کہ جن لوگوں نے امریکہ، برطانیہ ، سپین، فرانس اور دوسرے ممالک پر حملے کئے وہ درحقیقت مسلمان ہی نہیں تھے، انہوں نے محض اسلام کے نام پر بعض حلقوں کے مفادات کی خاطر اس طرح کی کاروائیاں کیں کیونکہ کوئی مسلمان از خود اس طرح کے کام نہیں کرسکتا، اسلام نے مسلمانوں کو کسی شخص کی جان سے کھیلنے سے بھی منع کررکھا ہے مگر مسلمانوں پر لگنے والا یہ داغ ہے کہ دھلنے کا نام ہی نہیں لیتا، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مغرب میں بہت تیزی کے ساتھ پھیلنے والے اسلاموفوبیا کی وجہ سے مسلمان مغربی معاشروں سے ناراض ہیں اور ان میں سے بعض جانے انجانے میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جاتے ہیں کہ جس کا خمیازہ سارے یورپی مسلمانوں  کو بھگتنا پڑتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوا کون دے رہا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ مغربی دنیا میں ’’ عقل کُل‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور مشرق میں انتہا پسندوں کے مہاراج نریندر مودی یہ’’ فریضہ‘‘ سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی مسلمانوں  کے ساتھ ازلی دشمنی چلی آرہی ہے اور یہ اسے نبھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ علاوہ ازیں یہ مغربی ممالک ہی ہیں کہ جو پہلے اپنے مقاصد کے لئے کبھی مجاہدین، کبھی طالبان اور کبھی اسلامی حکومتوں کے خلاف ’’ باغی‘‘ پیدا کرتے ہیں انہیں مسلح کرتے ہیں، انہیں ہیرو بناتے ہیں اور جب اپنا کام نکل جاتا ہے تو انہیں مسلمانوں  کے کھاتے میں ڈال کر انتہا پسند قرار دے دیتے ہیں۔ مغربی ممالک گزشتہ 30سال سے زیادہ عرصہ سے خود مسلمانوں کے ساتھ یہ کھیل کھیلتے چلے آرہے ہیں اس کے لا محالہ اثرات مغربی ممالک پر بھی پڑتے ہیں اور سازشی عناصر ’’جنت‘‘ میں جانے کا لالچ دے کر یا بہلا پھسلا کر بعض نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر گزرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود مسلمانوں کے بعض حصوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر انتہا پسندی موجود ہے۔ نوجوانوں کا جہادی عناصر کے ساتھ انٹرنیٹ پر رابطے میں رہنا اور موقع پاکر نام نہاد جہاد کے لئے شام، عراق یا پھر افغانستان چلے جانا بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں انٹرنیٹ پر جہادی پروپیگنڈا ہے وہاں نوجوانوں  کے ساتھ والدین، رشتہ داروں اور کمیونٹی کی عدم توجہی بھی ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے اندر انتہا پسندی کے ’’جراثیم ‘‘ دیکھ کر اس مسئلہ کو انڈر کارپٹ کرنے کی بجائے اس کا سامنا کریں اور ضرورت پڑنے پر اس میں حکومت کو بھی ملوث کریں تو دوسرے نوجوانوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ والدین اور معاشرے کے دوسرے افراد کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آیا کوئی نام نہاد سکالر بھی نوجوانوں کو اسلام کے نام پر بہکا تو نہیں رہا؟ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ انٹرنیٹ پر نوجوان لڑکیوں کو ورغلا کر شام اور عراق لے گئے ہیں اگر کمیونٹی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گی اور انتہا پسندی کو روکنے کیلئے اقدامات نہیں کرے گی تو پھر مقامی کمیونٹیز اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھنے سے روکا نہیں جاسکے گا۔ اگر کسی مسجد میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جو کمیونٹی کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں تو ان کی رپورٹ ضرور کی جانی چاہئے۔ مساجد کو غیر مسلموں پر کھولنا ایک خوش آئند قدم ہے۔ مسلم کونسل آف برٹین یہ کام گزشتہ تین برس سے کررہی ہے۔ اس سال دو سو سے زیادہ مساجد کو غیر مسلموں کے لئے کھولا گیا اور ان کے سوالوں کے جواب بھی دیئے گئے۔ خود وزیراعظم تھریسامے اور اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن بھی مساجد میں گئے جہاں وزیراعظم نے اسلام کو امن کا دین قرار دیا وہاں اپوزیشن لیڈر نے امریکی صدر کو مشورہ دیا کہ وہ کمیونٹیز کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے ان لوگوں کے پاس بیٹھیں اور ان کے ساتھ چائے پیئیں جنہیں وہ برا سمجھتے ہیں تو انہیں اچھا محسوس ہوگا۔ مساجد کو غیر مسلموں پر کھولنے کا یہ کام زیادہ موثر انداز میں ہونا چاہئے اور اس میں مغربی ممالک کے تمام مسلمانوں کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔
تازہ ترین