• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر کونسل کا خاتمہ....متبادل کیا ہوگا....؟ تصویر کا دوسرا رخ… ابرار مغل

ڈوگرہ چنگل سے آزاد خطہ میں باضابطہ انتظامی حکومت 24 اکتوبر 1947کے بعد نظام حکومت چلانے اور اداروں کی تقسیم جسے پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے لئے رولز آف بزنس ایکٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اس مختصر حصے کے اقتدار اعلی کی ملک بنی تو سیاسی حلقوں اور خصوصا پارٹی کے اندر اختلافات ابھر کر سامنے آنے لگے پاکستان کی فوجی حکومتوں کی مداخلت اور مستقل انتخابی عمل کے لئے آئین سازی کی چہ مگوئیوں نے جنم لیا، رولز آف بزنس 1950 آزاد جموں وکشمیر ایکٹ 1960، 1963بھی اس خلا کو پُر نہ کرسکابعدازاں ایکٹ 1964 کی ناکامی کے بعد گورنمنٹ ایکٹ 1970 بھی توقعات پر پورانہ اتر سکا، ان حالات سے نمٹنے اور آزاد خطہ میں اقتدار کی رسہ کشی کو وفاق کی جانب سے کنٹرول کرنے کے لئے ایکٹ 1974کا نفاذ کرکے کشمیر کونسل تشکیل دی گئی جس کا سربراہ براہ راست پاکستان کے وزیراعظم کو بنایا گیا اور سینیٹ کے برابر کا ایسا ادارہ بنایا گیا جو مالیاتی ، خارجہ اور داخلہ پالیسی کو کنٹرول کرتے ہوئے حکومت کو عملا چلائے گا۔ وفاقی دارالحکومت میں اس ادارے کا ہیڈ کوارٹر قائم کرکے آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاست کو اسلام آباد کے ماتحت کردیا گیا۔ کشمیر کونسل کے انتخابات ہارس ٹریڈنگ ، وفاق کی اجارہ داری اور اسلام آباد میں موجود کشمیری بااثر دھڑوں کی مداخلت جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ بجٹ اور تعمیراتی منصوبوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا انتہائی دشوار ہوگیا۔ ریونیو ، ٹیکسز کی وصولی کے بعد یہ ادارہ آزاد کشمیر حکومت سے زیادہ بااثر بن گیا۔ اس کے علاوہ بے شمار قانونی پیچیدگیوں ، آزاد کشمیر کے انتظامی امور اور معاملات میں دخل اندازی اور فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کا سامنا بھی کرنا پڑرہا تھا۔ کشمیر کونسل کے قیام کیساتھ ہی قوم پرستوں نے اس ادارے کو کشمیر کی غلامی اور بے انصافی قرار دے کر ہمیشہ اس کونسل کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کونسل کے خاتمے کو شامل کرکے جدوجہد شروع کی آخر کار وفاق اور پاکستان کی برسر اقتدار جماعت نے اس مطالبے کو تسلیم کرکے اس کونسل کو ختم کرنے اور ایکٹ 1974میں ترمیم کرکے آزاد کشمیر نیم خود مختار ریاست ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس اعلان کے بعد کونسل کے سیکڑوں ملازمین کے ساتھ بعض اپوزیشن جماعتیں بھی مخالفت کرکے کشمیر کونسل کے خاتمے کو بے انصافی قرار دے رہی ہیں۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ بتانا قبل از وقت ہوگا لیکن تصویر کے دوسرے رخ پر قیاس آرائیوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1947میں ڈوگرہ فوج سے خالی کرایا گیا ہر خطہ اگرچہ خود مختار ملک یا ریاست نہیں لیکن کسی ملک کا حصہ بھی نہیں ہے۔ ایکٹ 1974 نے اس خطہ کو کافی حد تک قانونی حیثیت دیکر قانون ساز اسمبلی ذریعے یہاں کے عوام کو جمہوری حق دیا۔ مرحوم کے ایچ کے ایچ خورشید کے پاس کشمیر کی آزادی کیلئے آزاد کشمیر کو بااختیار اور خود مختار ملک تسلیم کرواکر آزادی کی تحریک کو دوسرے انداز میں چلانے کا پروگرام تھا ان کی شہادت کے بعد یہ مشن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوگیا البتہ کشمیر کونسل نے ان کے اس مشن کی کسی نہ کسی حد تک نگہبانی ضروری ہے کشمیر کونسل آزاد کشمیر کی نیم خود مختار ریاست کی ضامن ہے اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کشمیر کونسل کے خاتمے کے بعد اس کا متبادل کیا نظام لایاجائے گا۔ کیا ریاست کے اندر سٹیٹ کونسل یا سینیٹ قائم کیا جائے گا۔ پاکستان کے عبوری ایکٹ کی بجائے آزاد کشمیر اسمبلی اپنا ایکٹ بنائے گی، اگر بنائے گی تو کیا مظفر آباد اسمبلی پوری ریاست کی نمائندگی کرنے کی اہل ہوگی، کیا پاکستان میں رہنے والے کشمیری مہاجرین آزاد کشمیر سے اسی طرح مراعات لیتے رہے گے کیا کونسل کے خاتمے کے بعد مہاجرین کا کوٹہ اور ان کے لئے مختص اسمبلی نشستیں قائم رہے گی۔ یہ وہ سوال ہیں جو آزاد کشمیر میں سیاسی بحران کو جنم دے رہے ہیں، تصویر کے دوسرے رخ پر یہ چہ میگوئیاں بھی گردش کررہی ہیں کہ سی پیک کے بعد جہاں گلگت وبلتستان اور فاٹا کے عوام کو ان کے حقوق دیکر اس پورے خطے میں امن کے قیام کو یقینی بنایا جارہا ہے یہی وہی اس پلان میں کشمیر کونسل کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر کا مستقل حل شامل تو نہیں، نصف صدی کی جدوجہد کے باوجود بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوسکا ہے بھارت اور پاکستان شایدکبھی بھی اس دیرینہ مسئلے کو حل نہ کرسکیں تو برصغیرمیں ایٹمی جنگ سے بچنے اور سی پیک کو محفوط رکھنے کے لئے متبادل حل کیا ہوسکتا ہے اس حوالے سے کوئی رائے قائم تو کی جاسکتی ہے لیکن اس پر عمل ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے تاہم یہ بات ضرور ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام اس فیصلے سے خوش نظر آرہے ہیں۔
تازہ ترین