• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیالال مسجد کا لعل شہباز قلندر مزارپر حملےسےکوئی تعلق ہے؟

اسلام آباد(اعزاز سید) لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے رشتے دار 25سالہ عبدالسلام مزاری اسلام آباد کی امیر حمزہ مسجد میں امام ہیں۔ سندھ پولیس کے محکمہ انسداددہشتگردی نے انھیں لعل شہباز قلندر کےمزار پرحملے سے تعلق کے الزام میں دہشتگرد قراردیاہے۔ عبدالسلام مزاری کاکہناہے کہ وہ کبھی سندھ نہیں گئے اور دہشت گردی سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔ چشمہ لگائے اور سرپر سفید پگڑی پہنے 25سالہ عبدالسلام مزاری میرے سامنے بیٹھاتھا اور مجھے اردومیں بتا رہا تھا کہ ’’دہشتگردی سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور میں کبھی کراچی بھی نہیں گیا لیکن سندھ پولیس کےمحکمہ انسدادِ دہشتگردی نے لعل شہباز قلندرکے مزارپرحملےسے تعلق کے الزام میں مجھے دہشگردقراردے دیاہے، میں ایسے حملوں کی مذمت کرتاہوں۔‘‘ 16فروری 2017 کو سہون میں واقع مذکورہ بالا مزار پرہونےوالے خودکش حملےمیں 91 زائرین جاں بحق ہوئےتھے، جو شام کی نماز کی کے بعد صوفی رسومات ادا کررہےتھے۔ ابتدائی طور پر داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ حادثاتی طور پر تقریباً 5 فٹ کےمزاری کواسلام آباد کی لال مسجدکے عالم مولانا عبدالعزیز کے ساتھ جوڑاگیا، مولانا عبدالعزیز دارالحکومت میں ہمیشہ انتہا پسندی اورعدم برداشت سے متعلقہ سازشوں میں گھرے رہتے تھے۔ مزاری کی والدہ عبدالعزیز کی کزن ہیں۔ عبدالسلام مزاری کہتےہیں، ’’ہمارا گناہ یہ ہے کہ ہم لال مسجد کےمولانا عبدالعزیز کے رشتہ دار ہیں، ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا لیکن اب بھی ہمارےخاندان کے افراد کو اٹھا لیاجاتا ہے اور پولیس انھیں مختلف مقدمات میں ملوث کردیتی ہے۔ عبدالسلام مزاری جنوبی پنجاب کے غریب شہر راجن پورکی تحصیل روجھان مزاری میں پیدا ہوئے، وہ چار بھائی اور ایک بہن ہیں۔ سب سے بڑےغلام مصطفیٰ، عبدالرزاق، عبدالسلام اور ایم یعقوب اور ایک بہن ہیں، اس کے والد پاکستان ریلوے میں ملازم تھے لیکن اب ریٹائرمنٹ کے بعد راجن پورمیں ایک کاشتکار ہیں۔ اس نے بتایا کہ اس کا سب سے بڑا بھائی غلام مصطفیٰ جون 2017 میں بلوچستان کےعلاقے مستونگ میں سکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا۔ عبدالسلام مزاری کے مطابق غلام مصطفیٰ کراچی میں کام کررہاتھا۔ وہ اکثر اپنے آبائی علاقے میں آتاتھا اور بتاتاتھاکہ وہ کراچی میں نوکری کرتاہے، تاہم خاندان کو نہیں پتہ تھا کہ وہ کیاکرتا ہے۔ اس نے بتایاکہ اس کے بڑے بھائی غلام مصطفیٰ کے ساتھ اس کی آخری ملاقات تقریباً 2013/2014 میں ہوئی جب وہ راجن پور کی تحصیل روجھان میں واقع اپنے گھر میں آیاتھا۔ اسے شک ہے کہ اس کے بھائی کو جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ عبدالسلام مزاری اپنی بیوی اورچاربچوں کےساتھ اسلام آباد کے ایک مقامی مدرسےمیں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتےہیں،’’ ہمیں یقین ہے کہ پہلے اُسے گرفتارکیاگیا اور پھر ایک جعلی مقابلے میں مار دیاگیا۔‘‘ میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ یہ غلام مصطفیٰ ہی تھا جس نے صفی اللہ مزاری کے ساتھ مزار پر خودکش حملے میں اہم کردار ادا کیا۔ حادثاتی طور پر صفی اللہ مزاری بھی عبدالسلام مزاری کا کزن ہے لہذا اس کا بالواسطہ طورپر مولانا عبدالعزیز کےساتھ تعلق ہے۔ عبدالسلام کا دعویٰ ہے کہ صفی اللہ بھی بے گناہ ہے اسے انٹلیجنس ایجنسیوں کے حوالے کردیاگیا جہاں اس نے تین ماہ گزارے اور بے گناہ قرارپانے کے بعد اسے اُس کیس میں رہائی مل گئی لیکن اب اس کا نام دوبارہ اس مقدمے میں شامل کرلیاگیاہے۔ اس نے بتایا کہ ہمیں پتہ لگاہے کہ سی ٹی ڈی سندھ کی پریس کانفرنس میں میڈیا رپورٹس کے ذریعےہمیں مفرور اور مطلوب دہشت گرد قراردےدیاگیاہے۔ عبدالسلام مزاری یہ بھی بتاتے ہیں کہ 22اگست 2017کواسلام آباد کی امیر حمزہ مسجد کے امام اور اس کے چھوٹے بھائی محمدیعقوب کو بھی ایجنسیوں نے اٹھالیاتھا، اس نےاسلام کی مزید تعلیم کے حصول کیلئے حال ہی میں اسلام آباد کی اسلامک یونی ورسٹی میں داخلہ لیاہے۔ عبدالسلام مزاری کہتے ہیں ’’مجھے نہیں پتہ کہ اسے کیوں اٹھایاگیاتھا۔‘‘ جب پوچھا گیاکہ کیا اس نے کبھی جہاد کی تربیت لی ہے یا افغانستان گیاہے تو عبدالسلام نے اس سے انکار کیا، یہ دو علامات ہیں جو جنگجوئوں میں عام طورپر پائی جاتی ہیں۔
تازہ ترین