• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توانائی کا بحران، لوڈشیڈنگ کی صورت میں کم و بیش دو دہائیوں سے بلائے بے درماں کی صورت عوام کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہے۔ اس دوران برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے ایک دوسرے پر طنز کے تیر بھی چلائے اور بڑے بلند بانگ دعوے بھی کئے کہ اتنی مدت میں یہ مسئلہ حل کردیں گے لیکن نتیجہ، وہی ڈھاک کے تین پات۔ کوئی بھی وعدہ ایفا نہ ہوسکا۔ کچھ عرصہ قبل گردشی قرضےبڑھ گئے تو ناقص کارکردگی پر لاہور، پشاور، کوئٹہ اور سکھر کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہ فارغ کردیئے گئے۔ اس پر رائے یہ تھی کہ ایسے اقدامات سے مسائل حل نہ ہوں گے کہ یہ محض نمائشی اقدامات ہیں۔ اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے فرنس آئل سے بجلی بنانے کا مہنگا ترین طریقہ ہی ترک نہ کرنا ہوگا بلکہ ترسیل نظام کی فرسودگی یعنی پرانی ٹرانسمیشن لائنز کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بجلی چوری پر بھی قابو پانا ہوگا۔ ایسا کچھ نہ ہوسکا اور بدھ کے روز قومی اسمبلی کے قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے روبرو وفاقی وزیر توانائی سردار اویس خان لغاری نے یہ ’’مژدہِ جاں گسل‘‘ سنایا کہ وفاقی حکومت بجلی چوری کو روکنے میں ناکام ہوگئی ہے، بجلی چوری کی مد میں 400ارب روپے نہیں رکھ سکتے، کمپنیوں میں لائن لاسز کی صورت حال بہتر نہیں، اووربلنگ کا اربوں کا نقصان حکومت برداشت کررہی ہے، وفاقی حکومت ملک بھر سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے فیصلے پر نظرثانی کررہی ہے، لہٰذا آئندہ موسم گرما میں لوڈشیڈنگ ہوگی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اپنی ناکامی کا اعتراف بھی کسی دیدہ دلیری سے کیا جارہا ہے، ورنہ اپنی ناکامی پر مستعفی ہونے کی کوئی تو اچھی مثال قائم کی جاسکتی تھی۔ حکومت چوری پر قابو نہیں پا سکی اور لائن لاسز بڑھ رہے ہیں تو قصور کس کا ہے اور اس کی سزا عوام کو دینا کہاں کا انصاف ہے کہ وہ سخت گرمی میں بلبلاتے رہیں؟ حکومت اس ضمن میں تمام تر وسائل بروئے کار لائے، دوسروں سے تکنیکی معاونت حاصل کرے اور خاص طور پر گرمیوں میں عوام کو لوڈشیڈنگ سے بچائے، اگرچہ گرمیوں سے قبل حکومتی میعاد پوری ہو جائیگی لیکن کیا اس کے بعد حکمران جماعت نے انتخابات میں حصہ نہیں لینا یا سیاست کو جاری نہیں رکھنا۔

تازہ ترین