• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی اورمذہب کا الٹھ....؟ روزآشنائی…تنویر زمان خان:لندن

گزشتہ دنوں بی بی سی پر28سالہ برٹش مسلم خاتون مہرین کی اپنے ہی خاندان پر بنائی ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی جو آج کل نہ صرف برٹش ایشیائی حلقوں میں زیر بحث ہے بلکہ کئی اخبارات اور میگزین اس پر تبصرے بھی کررہے ہیں جوکہ بنیادی طور پر باپ بیٹی کی گھر میں ہونے والی گفتگو ہے۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ گھر میں ہر شخص اس کے لباس، باہر آنے جانے، دوستوں سے ملنے جلنے یا کسی وقت دیر تک باہر رہنے پر نظر رکھتا ہے۔ اس پر پابندی ہے کہ وہ اگر باہر ہو تو تھوڑی تھوڑی دیر بعد فون پر اپنے والد سے رابطے میں رہے چونکہ وہ ایک مسلمان گھرانے کی لڑکی ہے، جس پر مہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا وہ ایک ہی وقت میں ایک آزاد عورت اور مضبوط مسلمان ہوسکتی ہے یا دوسرے معنوں میں اس کی آزادی اور مذہب کیا ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کو لبرل بھی سمجھتی ہے، لیکن کہتی ہے کہ وہ اس کی آزادی کو ہضم نہیں کرسکتے، مہرین کا والد کہتا ہے کہ خواہ ملازمت کرتی ہو یا جتنی بھی عمر میں بڑی ہوگئی ہو جب تک شادی شدہ نہیں ہوجاتی تم میری ذمے داری ہو۔ شادی کے بعد تم اپنے شوہر کی ذمہ داری بن جائو گی۔ مہرین اس بات پر کافی کنفیوژ ہے، کیونکہ اس پر پابندیاں مسلم گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے بھی لگائی جارہی ہیں۔ وہ اس بے چینی کو اپنی دوسری دوست لڑکیوں سے بھی شیئر کرتی ہے۔ وہ پریشانی میں احادیث، قرآن اور دیگر کتب کا حوالہ بھی دیتی ہے جہاں مرد کو اپنی بیوی پر سرزنش کی اجازت ہے۔ اچھی مسلم بیوی سے مرد کو جو توقعات ہوتی ہیں ان کا ذکر کرتی ہے۔ پھر اپنے والد سے سوال کرتی ہے کہ اگر وہ لڑکی کی بجائے لڑکا ہوتی تو کیا پھر بھی اس پر یہ پابندیاں عائد کی جاتیں، تو والد کہتا ہے نہیں لڑکا، لڑکا ہوتا ہے۔ وہ آزاد گھوم پھر سکتا ہے، دوستوں میں رہ سکتا ہے، دوستوں کا انتخاب بھی کرسکتا ہے اور رات کو دیر تک ان کے ساتھ رہ بھی سکتا ہے۔ یہ بات مہرین کو کھا جاتی ہے اور وہ اپنے حلقہ احباب میں ایسی بحث کا آغاز کرتی ہے کہ مسلم گھرانوں میں لڑکیوں کی جانب ایسا رویہ آیا۔ فقط مذہب کی وجہ سے ہے یا یہ کوئی کلچرل چیز ہے۔ والدین، بیٹیوں پر اتنا کنٹرول اور تسلط کیوں قائم کرتے ہیں۔ کبھی مذہب اور کبھی گھریلو اطوار کے نام پر عورت کے اپنے آزادانہ فیصلے کے حق کو کیوں دبایا جاتا ہے جبکہ مردوں کے حقوق کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسی تعلیمات دی جاتی ہیں کہ اچھی بیوی وہ ہوتی ہے جو شوہر کے بلانے پر کبھی بھی انکار نہ کرے۔ وگرنہ اس پر نہ صرف خدا ناراض ہوتا ہے بلکہ فرشتے بھی لعنت بھیجتے رہتے ہیں مہرین نے کہا کہ مردوں نے اس طریقے سے اپنے حقوق کو محفوظ بنا رکھا ہے اور مذہب کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ مہرین کی ایک دوست کہتی ہے کہ دونوں جنسوں Gendersکا کمپرومائزCompromisc محال ہے۔ فلم میں ایک امام صاحب کے ساتھ بھی ایک نشست رکھی گئی جو مذہبی نقطہ نگاہ سے مردوں اور عورتوں کے فرائض کا ایسے ذکر کرتا ہے جس سے مہرین کے باغیانہ نقطہ نظر کو مزید تقویت ملتی ہے۔ مہرین دراصل نہ تو اس تمام ماحول کے بعد گھر سے بھاگتی ہے نہ ہی کسی لڑکے سے تعلقات دکھاتی ہے بلکہ وہ دراصل عورت پر مسلم فیملیوں میں جیسے کنٹرول قائم کیا جاتا ہے اسے بے نقاب تو نہیں لیکن زیر بحث لانا چاہتی ہے اگر بے نقاب کرتی تو شاید برطانیہ اور یورپ کے علماء کے مظاہرے شروع ہو جاتے۔ ایسی فلمیں بننے لگیں تو تنگ نظر عناصر غیر محفوظ سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں اسی لیے ہم ایسی بحثوں سے کتراتے ہیں اس سے مرد کا عورت پر صدیوں پرانا کنٹرول کمزور پڑتا ہے اور ہم روایت شکن اور مذہب مخالف قرار دے کر پابندی عائد کیے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عورت کو مرد کی طرح معاشرے کا آزاد رکن تسلیم کرنے کا سوال ہے۔ جس پر ترقی یافتہ دنیا نے تو تاحال مسلم اور کنزرویٹو معاشروں سے کافی ترقی کی ہے اسی لیے مہرین کے لیے بھی یہ بحث برطانیہ میں ہی ممکن ہوسکی جس کے آخر میں مہرین کا باپ آزادی مانگنے والی مہرین کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہنے سے انکار کردیتا ہے، لیکن اپنے پیار کے ہاتھوں مجبور ہوکر کہتا ہے کہ میں تم جہاں جائوگی تمہیں ملنے آیا کروں گا۔ یہ ہماری سوسائٹی میں جمود ہے، جسے ہم مغرب میں رہتے ہوئے بھی توڑنے میں بڑی مشکل محسوس کرتے ہیں اس تمام بحث کا تعلق عورت کی بے راہ روی سے نہیں بلکہ اس کے مردوں کی طرح کے مقام کو تسلیم کروانے سے ہے۔ اسلام وومن اینڈ می جیسی فلمیں بنتی رہنی چاہئیں۔

تازہ ترین