• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملین ڈالر سوال! زیبِ داستاں…ڈاکٹرلبنیٰ ظہیر

سیاسی بے یقینی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق 3 مارچ کو تمام اسمبلیوں نے نئے سینیٹرز کا انتخاب کرنا ہے۔ گویا تقریباََ ایک ہفتہ ہی باقی بچاہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے ان سات دنوں پر بھی کتنے ہی سوالات گہرے بادلوں کی طرح تنے ہوئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایک بار پھر نا اہل قرار دیدئیے جانے کے بعد انکے دستخطوں سے جاری کردہ ٹکٹ کالعدم ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن ،راجہ ظفر الحق کے دستخطوں سے جاری کردہ ٹکٹوں اور درخواست کو بھی مسترد کرچکا ہے۔عملاََ مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں کو سینیٹ انتخابات سے خارج کر دیا گیا ہے۔ اب ان امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا ہو گا۔ غیر جانبدار آئینی و قانونی حلقے اس فیصلے کوتنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسکے قانونی اور سیاسی مضمرات پر بحث جاری ہے ۔ لگتا یہی ہے کہ نئے سینیٹرز کے منتخب ہونے اور حلف اٹھا لینے تک مطلع پوری طرح صاف نہیں ہو گا۔
اور سینیٹ انتخابات کا دریا عبور کر بھی لیا گیا تو بقول منیر نیازی قوم کو ایک بڑے اور بپھرے ہوئے دریا کا سامنا ہو گا جسکا نام عام انتخابات ہے۔ ان انتخابات سے پہلے ایک نگران حکومت مرکز میں اور چار نگران حکومتیں صوبوں میں تشکیل پانی ہیں۔سیاسی تنائو اور کشمکش کی موجودہ فضا میںیہ کام بھی آسانی سے ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ انتخابی مہم کی گرمی ابھی سے محسوس کی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر خود فریبی سے نکل آئی تو اپنے آپ کو عمومی طور پر سندھ تک محدود ہی رکھے گی۔ اگرچہ وہاں بھی اسے مشکلات کا سامنا ہو گا۔ لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نہایت ہی تند و تیز انتخابی مہم چلے گی۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ یہ مہم انتخابات پر کس طرح کے اثرات ڈالے گی، اس وقت اندازہ لگانا مشکل ہے۔
سینیٹ اور عام انتخابات کے بارے میں پھیلی بے یقینی کیساتھ ساتھ عدالتی اور سیاسی محاذ پر بھی ایک بڑا معرکہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ معرکہ اب انفرادی اور جماعتی حدود سے نکل کر ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسکا آغاز پانامہ کیس سے ہوا۔ ایک پٹیشن کو عدالت نے با ضابطہ طور پر فضول اور لا یعنی قرار دے کر کباڑ خانے میں پھینک دیا۔ عمران خان نے ہلچل پیدا کی۔ اسلام آباد میں دھرنا 2 اور لاک ڈائون کا اعلان کیا۔ اسکے ساتھ ہی ایک" فضول اور لایعنی" قراردی گئی پٹیشن کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے پانچ رکنی بنچ کے سامنے لگا لیا گیا۔ بعد کی کہانی سب کے سامنے ہے۔ 28 جولائی کو وزیر اعظم نواز شریف ، وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دئیے گئے۔ انکے صادق اور امین نہ ہونے کا سبب، کوئی کرپشن یا بد عنوانی نہیں، ایک اقامہ قرار پایا۔ جرم یہ نکلا کہ نواز شریف نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے طے شدہ تنخواہ لی یا نہیں لی، وہ انکا اثاثہ تھی۔ اثاثہ چھپا کر بد دیانتی کی گئی۔ نواز شریف یہی بیانیہ لے کر جی ٹی روڈ پر نکلے اورپھر دیکھتے دیکھتے انکا بیانیہ مقبول ہوتا چلا گیا۔ وہ عوام کو باور کرانے میں کامیاب رہے کہ انکے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ نتیجہ یہ کہ لاہور اور چکوال کے ضمنی انتخابات میں انکے امیدوار فاتح ٹھہرے۔ پھر لودھراں کا بڑا معرکہ درپیش ہوا،جس نے سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا۔ رہی سہی کسر نواز شریف کے بڑے بڑے پر جوش جلسوں نے پوری کر دی۔ پیغام یہی گیا کہ وزیر اعظم نہ رہنے کے بعد نواز شریف کہیں زیادہ طاقتور ہو گیا ہے۔ اسکے حریف عوامی مقبولیت کی دوڑمیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ اسی رفتار سے آگے بڑھتا چلا گیاتو 2018 کے انتخابات میں 2013 سے بھی زیادہ بڑی طاقت بن کر ابھرے گا۔
دلچسپ بات ہے کہ ہر دم متحرک رہنے اور کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہنے والی پی ٹی آئی پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہو گئی ۔ چار سال سے زائد عرصے تک "گو نواز گو" کا نعرہ لگاتے رہنے کے بعد جب نواز شریف واقعی "گو" ہو گئے تو پی ٹی آئی کا نہ کوئی نعرہ رہا نہ بیانیہ۔ دوسری طرف نواز شریف نے دیکھتے دیکھتے سب سے بڑے بلکہ واحد اپوزیشن لیڈر کی حیثیت بھی سنبھال لی۔ اس غیر متوقع صورتحال نے پی ٹی آئی کو مجبور کر دیا کہ وہ ساری امیدیں سیاسی جدوجہد یا عوام کے بجائے عدالتوں سے وابستہ کر لیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اب تک پی ٹی آئی یا اپوزیشن کے دیگر حلقوں کو جو کچھ ملا، وہ عوامی تحریک سے نہیں، صرف عدالتی فیصلوں ہی سے ملا۔عمران خان نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ عدلیہ نے پانامہ کے بجائے اقامہ کی بنیاد پر ایک کمزور فیصلہ دیا جس سے نواز شریف کو فائدہ ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتیں نواز شریف اور مریم کو توہین عدالت کے الزام میں سزا سنائیں اور جیل میں ڈالیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ بہت جلد احتساب عدالت کا فیصلہ آنے والا ہے جس کے بعد نواز شریف اڈیالہ جیل میں ہونگے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن عناصر کی حکمت عملی کیا ہے؟ وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف بد ستور نا اہل رہے۔ اسے بد ستور پارٹی سربراہی سے محروم رکھا جائے۔ اسے نیب کورٹ سے سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا جائے۔ مریم نوازکو بھی سزا سنا دی جائے۔ انتخابات اسی فضا میں ہوں کہ( ن) لیگ کے ہاتھ پائوں بندھے رہیں۔ اسکی مقبول قیادت جیل میں پڑی ہو۔ قوم کے پاس پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کے سوا کوئی آپشن نہ رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی اب تک کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ اپنی جو خواہشات وہ بذریعہ سیاست پوری نہیں کر سکی وہ بذریعہ عدالت پوری ہو گئیں۔ لیکن دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ جن عدالتی فیصلوں کا وزن بظاہر پی ٹی آئی کے پلڑے میں پڑا ہے، کیا سیاسی اور عوامی سطح پر بھی وہ فیصلے پی ٹی آئی کے حق میں گئے ہیں یا ان فیصلوں سے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے اور اسکی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے؟ بظاہر یہی لگتا ہے کہ نوا شریف کے خلاف دیا جانے والا ہر فیصلہ سیاسی اور عوامی سطح پر مسلم لیگ (ن) کے حق میں جا رہا ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی آخری خواہش کے مطابق اگر نواز شریف اور مریم نوازشریف جیل چلے جاتے ہیں تو کیا انتخابی میدان پی ٹی آئی کے لئے صاف ہو جائے گا یا جیل میں بیٹھے باپ بیٹی اور بھی خطرناک ہو جائیں گے اور پی ٹی آئی کیلئے 2013 کی کارکردگی دہرانا بھی مشکل ہو جائے گا۔

تازہ ترین