• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اعلامیے میں امریکی انتظامیہ کی پرزور کوشش کے باوجود جس میں بھارت ، برطانیہ اور بعض دوسرے مغربی ملک بھی اس کے ساتھ تھے، پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل نہ کیا جانا جن کو منی لانڈرنگ اور دہشت گرد تنظیموں کو مالی وسائل کی فراہمی کو روکنے کیلئے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، بلاشبہ حکومت پاکستان کی کامیاب سفارتی کوششوں اور ہمارے دوستوں کے مخلصانہ تعاون کا نتیجہ ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ ہمیں صرف تین مہینے کی مہلت ملی ہے جس میں ٹاسک فورس کے مطالبات کی تکمیل کی جانی ہے ۔پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے جمعہ کو اپنی پریس بریفنگ میں بتایا کہ امریکہ اور برطانیہ نے ایف اے ٹی ایف کو اس سال بیس جنوری کو پاکستان کو گرے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی درخواست دی تھی جبکہ پاکستان اس درخواست میں ظاہر کیے گئے بیشتر تحفظات کے حوالے سے پہلے ہی اقدامات کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایک ایکشن پلان پر باقاعدہ عملدرآمد جاری ہے۔ اس کے باوجوددہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بے مثال کامیابیوں سے امریکہ کے مسلسل صرف نظر اور دنیا کی نظروں میں ہمیں مجرم ٹھہرانے کی کوشش کی وجہ کیاہے؟ اس سوال کا جواب وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے ان الفاظ میں دیا ہے کہ ’’ ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں فی الحال پاکستان شامل نہیں ہے مگر جون میں پاکستان کا نام اس لسٹ میں شامل ہو جائیگا، پاکستان کا نام شامل کرنا شاید امریکہ کی سیاسی ضرورت ہے۔‘‘بلاشبہ حقیقت یہی ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں بڑی بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں، امریکہ نے پاکستان اور چین کے اقتصادی تعاون کے خلاف بھارت سے اس حد تک گٹھ جوڑ کرلیا ہے کہ واشنگٹن خطے میں عملاً نئی دہلی کا آلہ کار بن کر رہ گیا ہے، کشمیر یوں کے حق خود ارادی کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرانے کے بجائے ٹرمپ انتظامیہ اب بین الاقوامی قانون کی رو سے کشمیریوں کی سو فی صد جائز تحریک کو کچلنے کیلئے عملاً بھارت کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے، پاکستان کے خلاف امریکی مہم جوئی کا ایک واضح مقصد کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت سے پاکستان کو روکنا بھی ہے۔جبکہ پاکستان نہ اپنے آزمودہ دوست چین کی دوستی اور سی پیک منصوبے سے دست بردار ہوسکتا ہے، نہ کشمیریوں کی جائز اور برحق تحریک کی حمایت سے ہاتھ کھینچ سکتا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے تمام راستے بند کرنے کے لیے پاکستان مسلسل مؤثر اقدامات کررہا ہے لیکن امریکہ اور بھارت کی جانب سے کسی اظہار اطمینان کی امید رکھنا سادہ لوحی کے مترادف ہے۔لہٰذا پاکستانی قوم کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعاون کے بغیر کاروبار مملکت چلانے کیلئے تیار کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ہماری جانب سے نئے دوستوں کی تلاش کا جو عمل جاری ہے،اسے معیشت اور دفاع سمیت تمام بنیادی شعبہ ہائے زندگی میں مزید مستحکم کیا جانا چاہئے۔دہشت گردی اور خطے میں کشیدگی اور بدامنی کے فروغ میں بھارت کا کردار بے نقاب کرنے کے لیے عالمی سطح پر جارحانہ مہم چلائی جانی چاہئے۔ ممبئی حملوں پر جرمن مصنف ایلس ڈیوڈ سن کی تازہ تصنیف میں واضح شواہد کی روشنی میں یہ چشم کشا انکشاف کیا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی، ہدایات اور عملی جامہ پہنانے میں بھارت، امریکا اور اسرائیل شریک تھے، اسی طرح بھارتی جاسوس کلبھوشن کے اعترافات بھارتی جرائم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا ملوث ہونا ایک کھلا راز ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں، ان سب حوالوں سے پاکستان بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کرکے عالمی برادری کو جنوبی ایشیا کے اصل حقائق سے باخبر کرسکتا اور اپنے خلاف منفی فضا بنانے کی کوششوں کو ناکام بناسکتا ہے۔ لیکن اس کیلئے ملک کے اندر سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کے درمیان کم از کم قومی سلامتی کے معاملات میں مکمل ہم آہنگی ضروری ہے جس میں سب کو اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرنا ہوگا۔

تازہ ترین