• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں کالج سے تازہ تازہ بی اے کرکے فارغ ہوا تھا ، اُن دنوں بی اے سے فراغت اور ایم اے میں داخلے کے دوران ایک سال کا وقفہ ہوا کرتا تھا ، ابھی میں نے اس وقفے کے دورا ن گھر میں بیٹھ کر مکھیاں مارنی شروع ہی کی تھیں کہ والد صاحب نے مجھے ایک انگریزی اخبار میں ’’چھوٹے رپورٹر‘‘ کے طور پر بھرتی کروا دیا۔ ایک دن مجھے اسائنمنٹ ملا کہ میں عاصمہ جہانگیر کی این جی او کے زیر اہتمام ہونے والی ایک تقریب کی رپورٹنگ کروں ، یہ پہلا ڈھنگ کا کام تھا جو مجھے سونپا گیا تھا سو میں بہت خوش ہوا ۔ہر نوجوان کی طرح عاصمہ جہانگیر کے بارے میں میرے خیالات بھی وہی تھے جو قدرے مذہبی گھرانے میں پروان چڑھنے والوں کے ہوتے ہیں، اردو اخبارات کے اداریے اور کالموں کے سائے میں جوان ہوا تھا ، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی مطالعہ پاکستان پڑھانے والے اساتذہ نے میری ذہن سازی کی تھی اور یوں وہ تمام اجزا میرے ذہن میں موجود تھے جو نوّے کی دہائی میں کسی کو بھی خود کش بمبار بنا سکتے تھے ۔ اس ذہن کے ساتھ میں عاصمہ جہانگیر کی تقریب میں گیاکہ وہاں یقینا کسی غیر ملکی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے کام ہو رہاہوگا ، انہیں باہر سے فنڈ ہی اِس کام کے ملتے ہیں ، این جی اوز بنانے کا مقصد ہی اس قسم کی تقریبات برپا کرکے اپنے چندے کا جواز پیدا کرنا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔جہاں تک مجھے یاد ہے یہ تقریب 1993 کے انتخابات کی نگرانی اور شفافیت کے حوالے سے تھی کہ کیسے انہیں مانیٹر کیا جائے ۔ میں اپنے ذہن میں جو زہر بھر کر گیا تھا اسے سنبھال نہ سکا اور عاصمہ جہانگیر کو اپنے تئیں بڑا کڑا سوال کیا کہ اِس کام کے لئے آ پ کو کہاں سے اور کتنی فنڈنگ ملی ہے ؟ اُن کا جواب تو مجھے یاد نہیں پر اُن کے چہرے کی مسکراہٹ یاد ہے ، نہایت تحمل سے انہوں نے جواب دیا، تقریب کے بعد میں مجھ سے پوچھا کہ برخوردار کس اخبا ر سے ہو، میں نے بتایا تو بولیں بہت اچھی بات ہے ، ملتے رہا کرو۔ یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی۔اُس کے بعد جب وہ سول سروس اکیڈمی میں لیکچر دینے آئیں تو وہاں ملاقات ہوئی پھرکئی برس تک اُن سے میرا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہوا ، البتہ گزشتہ چند ماہ کے دوران میری اُن سے دو تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں جن میں سے ایک ملاقات ٹی وی پروگرام میں ہوئی جو شاید اُن کی زندگی کا آخری پروگرام ثابت ہوا۔
عاصمہ جہانگیر کے بارے میں میرے خیالات اسی طرح تبدیل ہوئے جیسے مطالعہ پاکستان اور تاریخ کی نصابی کتابوں کے حوالے سے تبدیل ہوئے، جیسے اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے بارے میں دماغ کی کھڑکیاں کھلیں او ر جیسے عورتوں کی خود مختاری کے بارے میں سوچ بدلی۔ہم بنیادی طور پر حاسد لوگ ہیں ، ہم کسی بھی کامیاب ، دبنگ اور بہادر شخص کو تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ ہم خود ڈرپوک اور بزدل ہیں ، ہم مان ہی نہیں سکتے کہ کوئی دھان پان سی عورت فوجی آمر کے سامنے بلا خوف و خطر کھڑی ہو سکتی ہے ،ہمیں یہ سوچ کر سُبکی محسوس ہوتی ہے کہ جب ہماری ٹانگیں ایک تھانیدار کے سامنے لرزنے لگتی ہیں تو یہ عورت اُن لوگوں سے ٹکر لینے سے کیوں نہیں ڈرتی جن کا نام لبوں پر لانے کی بڑے بڑے طرم خانوں میں ہمت نہیں !عاصمہ جہانگیر کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر معاملے پر ببانگ دہل ایسا موقف اختیار کرتی تھیں جو پاکستان کے آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق، عورتوں کی آزادی ،مساوات ، اقلیتوں کے تحفظ اور قانون کے عین مطابق ہوتا ، بغیر لگی لپٹی رکھے وہ بات کرتیں ، آمریت میں اُن کا بانکپن مزید نکھر کر سامنے آجاتا ، جب لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر سوچ رہے ہوتے کہ کیا بات کریں، کیسے بات کریں، ایسے میں عاصمہ جہانگیر پوری گھن گرج کے ساتھ یوں برستیں کہ پورے سماج کو گویازبان مل جاتی۔ماورائے عدالت قتل کا معاملہ ہو، سر عام پھانسی کا مطالبہ ہو، میرتھن ریس میں عورتوں کا حصہ لینا ہو، لڑکیوںکا موٹر سائیکل چلانا ہو، اقلیتو ں کے حقوق کی بات ہویا آئین کے غاصب کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بات، عاصمہ جہانگیر کا موقف ہمیشہ واضح رہا، شاید اسی لئے یہ دبلی پتلی سی عورت بہتوں کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ہر بڑے آدمی کی طرح عاصمہ جہانگیر بھی کچھ معاملات میں متنازع رہیں ، ایک ایسے معاشرے میں جہاں بقول خورشید ندیم ’’لوگو ں کی اکثریت اپنی سماجی تشکیل میں مذہب کو ایک عامل کے طور پر قبول کرتی ہے ‘‘ وہاں عاصمہ جہانگیر کے خیالات ، خاص طور پر مذہبی حوالے سے ، معاشرے کے قدامت پسند طبقوں میں زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر سکے، اِس سے اُن کے امیج کو نقصان بھی پہنچا مگر انہو ں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی ، انہوں نے جو درست سمجھا وہی کہا اور کرکے دکھایا ، دبنگ انداز سے زندگی جی، سطحی مقبولیت کی خاطر یا ذاتی تعلقات کی بنا پر اپنے نظریات میں تبدیلی انہیں کسی صورت قبول نہیں تھی۔
عاصمہ جہانگیر مرتے ہوئے بھی ہمیں کچھ سوچنے کا موقع دے گئیں ۔ہمارا معاشرہ ایک دید لحاظ والا معاشرہ ہے ، یہاں لوگ جینے مرنے پر اپنے اختلافات بھول جاتے ہیں ، دشمن کے گھر بھی مرگ ہو جائے تو افسوس کرنے جاتے ہیں ، مرنے والے کے محاسن بیان کرتے ہیں ، مگر افسوس کہ ہمارا یہ سوشل فیبرک تباہ ہوتا جا رہا ہے ،ہمارے سیاسی نظریات ،مذہبی اعتقادات اور تعصبات نے ہمیں اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ اب ہم کسی کی مغفرت کی دعا کرتے ہوئے بھی خود ہی فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ اُس کی مغفرت بھی ہوگی یا نہیں ، گویا خدا نے کیا فیصلہ کرنا ہے نعوذباللہ یہ بھی کچھ لوگوں کو یقین سے معلوم ہے ۔تاہم ایک بات مثبت ہوئی ۔عاصمہ جہانگیر کو جتنی پذیرائی ملی وہ پاکستان ایسے ملک میں حیران کن ہے ، کئی ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک میں اس قسم کے ’’باغیانہ ‘‘ خیالا ت کے مالک افراد اکثر مرکزی دھارے سے باہر ہی رہتے ہیں اور انہیں میڈیا میں کوریج بھی مشکل سے ہی ملتی ہے مگر عاصمہ جہانگیر اس حوالے سے خوش قسمت رہیں اور اس کی ایک وجہ ان کا شعبہ وکالت تھا، وہ ایک طاقتور گروہ کی نمائندہ تھیں ، مگر یہاں بھی غلبہ مردوں کا تھا جس میں عاصمہ کا جگہ بنانا اور پھر انہیں لیڈ کرنا انہی کا کارنامہ تھا۔
اپنی آخری ملاقات میں انہوں نے مجھے بتایا کہ اب بھی وہ روزانہ صبح عدالت جاتی ہیں ، کیس لڑتی ہیں ، جوتیاں گھسیٹتی ہیں، شام کو دیگر تقریبات اور ٹی وی شوز میں شرکت کرتی ہیں ، رات کو اگلے دن کے کیس تیار کرتی ہیں اور اگلی صبح پھر کام پر نکل کھڑی ہوتی ہیں ۔ان کے پاؤں میں آگ لگی تھی ، بقول اقبال
بی خلشہا زیستن، نازیستن
باید آتش در تہہ پا زیستن
(وہ زندگی زندگی نہیں جس میں کچھ خلش یعنی کر گزرنے کی تڑپ نہیں ، زندگی تو ایسی ہونی چاہئے جیسے تیرے پاؤں کے نیچے آگ لگی ہو)۔اب ایسی زندگی گزارنے والی سے ہم ایسے لوگ تو حسد ہی کریں گے جو ’’ڈنگروں ‘‘ کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔سوشل میڈیا کے جو مجاہد عاصمہ جہانگیر کی موت کے بعد بھی انہیں گالیوںسے نواز رہے ہیں شاید انہیں علم نہیں کہ عاصمہ جہانگیر کی جنگ ہی یہی تھی کہ ہر شخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہونی چاہیے ، گویا جو آزاد ی وہ منا رہے ہیں اُس کیلئے انہیں عاصمہ جہانگیر کا بھی کچھ نہ کچھ شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد عورت تھی!

تازہ ترین