• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کو 70سال بیت گئے ، مگر ہنوز مملکت خداداد پاکستان جیسا کہ دورِ غلامی میں تھا، اب بھی ہے، بلکہ دو لخت ہوچکااور باقی حصہ غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے۔ عجیب کاغذی مورخین ہیںجو کہتے ہیں کہ 70سال قوموں کی زندگی کے لیے کوئی زیادہ عمر نہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ انہی سات عشروں میں ہمارے بعد آزا د ہونے والے ممالک کیوں اوج ثریا پر جاگزیں ہوئے۔ پورا ایشیاکیوں ہمارے ماسوا دھمک رہا ہے خیرہ کن ترقی سے چمک رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ درباری مورخین سمیت کوئی بھی پیارے پاکستان میںسچ کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں۔سچ یہ ہے کہ پاکستان میں غیر یقینی ہے،اور کسی کو معلوم نہیں کہ کل کا سیاسی ، سماجی و اقتصادی نقشہ کیا ہوگا، اور یہ کہ یومیہ صرف دو سو روپے کمانے والی 60فیصدآبادی اور بیماریوں و جہالت کی آماجگاہ پاکستان کب، درحقیقت ایشیا ٹائیگر بنے گا....! کیا محترم چیف جسٹس پاکستان و سالار افواج پاکستان سے لے کر مذہبی رہنمائوں اور ابن الوقت سیاستدانوں میں کوئی بھی ایسا ہے، جو اسکا جواب دے سکے!
موسموں کا کوئی محرم ہو تو پوچھوں اس سے
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں
ہم کہتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری ہے ، تو کیا کوئی بلاشک و تشکیک یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے؟ سیاست کا یہ عالم ہے کہ ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں میںکوئی ایک بھی ایسی جماعت نہیں، جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ وہ قومی جماعت ہے ۔ یہی حال سیاستدان اور مذہبی عناصر کا ہے، جن کے متعلق ملک بھر کے عوام کی، بقول منیر نیازی ایک ہی رائے ہے۔
میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
زرداروں و سرمایہ داروں کے ماسوا تمام پاکستانی میری طرح ہی گو مگوصورت حال کے نرغے میں ہیں۔ لیکن ایک بات جوواضح ہے وہ یہ کہ سیاسی جماعتیں کمزور اور سیاست بیزار قوتیں آئے روز مضبوط ہورہی ہیں۔دیکھا جائے تو ا س کی بڑی وجہ سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔ ہرآمرکے دست و بازو،ق لیگ یا ایم ایم اے کی طرح کی جماعتیں ہی بنیں۔جب جب اسٹیبلشمنٹ کو لگام دینے کا موقع سیاستدانوں کو ہاتھ آیا، وہ اپنا اصل کردار ادا کرنے کی بجائے گروہی مفاد کی خاطر آلہ کار بن گئے۔یہی نوازشریف صاحب نے حسین حقانی صاحب کے معاملے میں کیا ، اور زرداری صاحب اسی طریق پر اب عمل پیرا ہیں۔ نوازشریف اب اپنے کئے پر پچھتارہے ہیں،پی پی کل زرداری صاحب کے مفاد پرستانہ غیر اصولی عمل پر بین کررہی ہوگی ۔خواہ وہ سینیٹ میںیا دیگرکتنے ہی فوائد حاصل کرلیں ، یہ پائیدار جمہوریت کے کوئی کام نہیں آسکیں گے ۔موجودہ صورت حال کو عمران خان سمیت جو تجزیہ کارتحریک انصاف کیلئے سود مند سمجھتے ہیں، شاید یہ سراب جیسا خیال ہو۔ عمران خان صاحب تمام تر مواقع کے باوجود خود کو ایک قومی لیڈر کے طورپر منوانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ یوںاگر ان کا یہ وہم ہے کہ یہ سارا کچھ اُن کے حق میں امپائر کی انگلی اُٹھنے کی خاطر روبہ عمل ہے، ممکن ہے ان کے ذریعے سے باقی جماعتوں کو تو مات ہوجائے ، لیکن کہیں ان کے ساتھ دھرنے والا ہا تھ نہ ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزارت عظمیٰ کا خان کا خواب پورا ہوپائیگا؟ خواب کی تعبیر بتانے والے اگر ان کی قربت میں کوئی ہو، تو یہ بھی پوچھ لیا جائے ،کہ کب تک مروجہ پارلیمانی نظام کے برقرار رہنے کے امکانات ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے امیدوں کا مرکز پختونخوا ہی ہے۔یہاں اس کا پلڑا بھاری ہے،اسکی وجہ مگر اس کی کارکردگی نہیں، مخالف جماعتوں کا ضعف ہے ۔ مخالف جماعتوں میں سے کوئی بھی ایسی جماعت نہیں جسے پورے صوبے میں یکساں مقبولیت حاصل ہو ۔جہاں تک اے این پی کی بات ہے تو وہ اس اہلیت سے تاحال عاری نظر آتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ملک بھر میں پختون نیشنل ازم کو فروغ مل رہا ہے۔ اسلام آباد میں پختون قومی جرگے کے دھرنے اور مارچ سے قبائل تک قومیت کی ایک ہی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، لیکن اے این پی اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکی ہے۔ شاہی سید کراچی میں اس تحریک سےقطعی طورپر لاتعلق رہے۔ تنظیم کا سارا بوجھ صوبائی سیکرٹری جنرل یونس بونیری نے اُٹھایا ہوا ہے یا پھرصوبائی ترجمان عبدالمالک اچکرئی میڈیا میں اور نوراللہ اچکزئی سوشل میڈیا پر تنظیم کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ البتہ بلوچستان میں صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی انتہائی سرگرم ہیں۔ گزشتہ ماہ اسفند یار ولی خان نے جو مختلف علاقوں میں بڑے بڑے جلسے کیے وہ پوری بلوچستان کی تنظیم ،اراکین صوبائی اسمبلی و منتخب بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی کا مظہر ہیں۔ جماعت اسلامی کے بعد اب جے یو آئی کی سیاسی پوزیشن بھی کمزور ہورہی ہے۔اس کا بیس کیمپ بھی پختونخوا اور پھر بلو چستان کے پشتون علاقے ہیں، لیکن فاٹا کے پختونخوا میں شمولیت کی راہ میں مزاحم ہوکر ان صوبوں میں جے یو آئی کی پوزیشن کمزور پڑگئی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کا ووٹ اگرچہ برقرار ہے لیکن اسے کم کرنے کی کوششوں کی وجہ سے اس جماعت میں بھی پہلے والی بات نہیں رہی۔جہاں تک مسلم لیگ کا تذکرہ ہے۔تو حالیہ دنوں میں عوامی سطح پر اُس کا گراف جس تیزی سے بلند ہوا ہے۔ایسا مسلم لیگ نامی کسی جماعت کے مقدرکے ساتھ کبھی لکھا ہی نہیں گیا۔میاں نوازشریف ایک قومی لیڈرکے طورپر نئے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ اس جماعت کے ساتھ لیکن جو کچھ ہورہا ہے، صحیح یا غلط۔یہ سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کیلئےبہر صورت خوش آئند نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کمزور اور سیا ست بیزار قوتیں تن ومن میں بھر پور حیات لئے ہوئی ہیں اور غیر محسوس انداز میں سیاسی نظام پر قبضہ جما چکی ہیں۔بلوچستان حکومت کی جس طرح سرجری کی گئی یا سینیٹ کے جماعتی اُمیدوار جس انداز سے غیر جماعتی بنا دئیے گئے، یہ ’عبرت‘کے ایسے اشارے ہیں،جن سے اقتدارپرست سیاستدان سیکھ نہیں پاتے ہیں۔اور عبرت کے یہ نظارے بیچارے عوام پچھلے 70برس سے دیکھ رہے ہیں۔
آنکھوں میں اُڑرہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہےاور ہم ہیں دوستو

تازہ ترین