• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک خدادا دپاکستان کو ایک بار پھر کڑے وقت اور بپھرے ہوئے اندرونی اور بیرونی دبائوکا سامنا ہے۔ ایران سعودی عرب بڑھتی ہوئی کشمکش کے بعد سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان السعود کا دورہ پاکستان انتہائی مفید ثابت ہوا ہے۔ اعلیٰ سیاسی وعسکری پاکستانی قیادت نےسنجیدگی سے واضح کردیاہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کےبڑے بھائی ہونے کا کردار ادا کیا ہے ۔اس رشتے کی نسبت سے پاکستانی خادم الحرمین الشریفین کا بہت احترام کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی بھی خطرہ ہوا تو پاکستان انتہائی سخت جواب دیگا۔حکومت کا یہ انتہائی صائب فیصلہ ہے جس سے خطے میں پھیلی بے چینی رک جائیگی۔یہ فیصلہ بھی انتہائی خوش آئند ہے کہ ایران سعودی تعلقات کے تناظر میںپاکستان او آئی سی ممالک کے مابین بھائی چارے کی پالیسی پر کاربند رہےگااور برادر اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات بات چیت اور مصالحت سے دور کرنے کیلئے خدمات فراہم کر ے گا۔افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی جماعتیں اس پر بھی اپنی سیاست چمکانے سے باز نہیں آرہی ہیں اور حکومت کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں جس سے انھیں باز رہنا چاہئے۔
ایک طرف آپریشن ضرب عضب چل رہا ہےجس کی کلی کامیابی کیلئے فوج کو عوام کی بے پناہ دعائیں اور سیاسی قیادت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ فوجی جوان تفویض کردہ فرائض منصبی سے پوری طرح عہدہ براء ہورہے ہیں تو دوسری طرف پچھلے دنوں سیاسی و سماجی حلقوں میں چیف آف آرمی اسٹاف راحیل شریف کی طرف سے مدت ملازمت میں توسیع حاصل نہ کرنے کے بیان اور وقت پر ریٹائرمنٹ کا غلغلہ مچا ہوا تھا۔ ہر کوئی دور کی کوڑی لانے پر تلا ہوا تھاکہ یہ ہوگا وہ ہوگا ایسے ہوگا ویسے ہوگا۔سینیٹر اعتزاز احسن نے بھی کہا کہ راحیل شریف کو عہدہ میں نہ توسیع ملنی چاہئے اور نہ ہی انھیں قبول کرنی چاہئے۔جماعت اسلامی بھی اس پر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے ہوئے تھی۔سوال تو یہ ہے کہ نان ایشوز کو ایشوز بنانے کا یہ سلسلہ کہاں تک جا کر رکے گا۔پوری دنیا میں اس عہدے کی مدت ملازمت کو متنازع نہ بنائے جانے کی روایت موجود ہےجبکہ ہمارے یہاں سیاستدان بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی ماننداس موضوع کو بھی ایشو بنانے پر تل جاتے ہیں۔یہ کلیتاًوزیر اعظم کی صوابدید ہے کہ وہ ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئےمدت ملازمت میں توسیع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں۔اگر یہ فیصلہ بھی سیاستدانوں نے کرنا ہے تو قانون کی کتاب کو پھاڑ کر پھینک دینا چاہئے جس میں سربراہ حکومت کے اختیارات درج ہیں۔ اس امر پر دو رائے نہیں کہ جنرل راحیل شریف پہلے پاکستانی ہیں جو دنیا بھر کے زیرک سپہ سالاروں میں سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے دور میں جو بہادری کے جوہر دکھائے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب میں بھی بھتہ خوروں،جرائم پیشہ عناصر اور کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف بھی کارروائی شروع ہونے کو ہے جس کے بعد سندھ آپریشن کو یکطرفہ قرار دینے والے سیاستدانوں کو جواب مل جائیگا۔ بشمول کراچی پورے ملک میں نیشنل ایکشن پلان کو عوام تو اطمینان کی سند دے چکے ہیں لیکن اپوزیشن سمیت نام نہاد سیاستدان اس پر اختلافی بیان دیکر اپنی سیاست کا سکہ چمکانے کی سعی لاحاصل کررہے ہیں جس کا جواب انھیں آئندہ انتخابات میں عوام دے ہی دیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سپہ سالارسال کے بیشتر دنوں اور دن کے کئی پہر اپنے پیشے اور وطن کی خدمت پرمامور رہتا ہے۔ٹھنڈی مشینوں والےڈرائنگ روم میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کی بجائے اگلے مورچوں پہ جاکر جوانوںکا حوصلہ بڑھاتا ہے ۔اپنی عیدیں جوانوں کی نذر کردیتا ہے ۔ کوئی کیسے اس شخص کے اخلاص،نیت نیتی اورحب الوطنی پر شک کرسکتا ہے؟اور کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ انکی مدت ملازمت میں توسیع کرنے سے ملک میں بہت بڑی بے انصافی ہوجائیگی ۔میرا خیال ہے تبدیلی کے دعویدار اب ریڈ لائن کی پہچان کرنا سیکھ لیں اور سمجھ لیں کہ کس ایشو پر بولنا ہے اور کس پر خواہ مخواہ خبر بنوانے کیلئے بولنے سے پرہیز کرنا ہے۔تیسری طرف پاک چین اکنامک کاریڈور پر اندرون اور بیرون ملک منفی سیاست اور سیاسی بیانوں کی بھرمار سے محب وطن افراد کے دلوں میں امکانات اور خدشات کی آندھیاں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔چین اکنامک کاریڈور پر تیزی سے بڑھتی ہوئی مخالفت پر باریک بینی سے نظر رکھے ہوئے ہے۔چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری کے متعلق پاکستان سے منفی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ پاک چین قیادت کی منظوری سےشروع ہونے والے اس منصوبے سے پاکستان سمیت پورے خطے میں خوشحالی آئے گی۔چینی حکام ببانگ دہل اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل کیلئے پاکستان کےساتھ کھڑےہیں۔جبکہ توقع کے عین مطابق تنقید برائے تنقید کی تعریف پر پورے اترتے ہوئے انڈیا نے اسےناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔ستم ظریفی دیکھیے کہ ملک کی ترقی کے دعوے کرنے والے ہمارے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک اس منصوبے کی ہر پلیٹ فارم پر مخالفت کر رہے ہیں۔انکا یہ کہنا ہے کہ اگر اکنامک کاریڈور کے روٹ میں تبدیلی کی گئی تو نہ صرف سخت مزاحمت کریں گے بلکہ اس کو مکمل بھی نہیں ہونے دیں گے۔ پیپلزپارٹی بھی ان سے پیچھے رہنے والی نہیں جہاں موقع ملتا ہے پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہوجاتی ہے۔تمام سیاسی جماعتیں اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوگیا تو سیاست کافائنل میچ تو مسلم لیگ ن جیت جائے گی جبکہ باقی جماعتیں بالکل پٹ جائیں گی اور یہ امر انھیں بالکل بھی قبول نہیں۔اس منصوبے پر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اقتصادی راہداری کے حوالے سے سیاستدانوں سے اپیل کی ہے کہ خدارا اقتصادی راہداری کو کالا باغ ڈیم نہ بننے دیا جائے۔ چین پاکستان کو اقتصادی طاقت بنانا چاہتا ہے اور ہم اس پر سیاست کررہے ہیں۔ اقتصادی راہداری منصوبے کو بہترین قرار دینے والے سیاستدان اے پی سی میں جاتے ہی اپنے فیصلے سے مکر جاتے ہیں۔کالاباغ ڈیم جسے دنیا بھر کے ماہرین پاکستان کو سرسبز و شاداب بنانے کی چابی قرار دے چکے ہیں اس کے التوا سے پہلے ہی پاکستان کو تین دہائیوں سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔اقتصادی راہداری کے بارے میں وزیراعظم کی زیر صدارت کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کردئیے گئے ہیں امید ہے کہ تمام سیاستدان افہام تفہیم سے اسے مکمل ہونے دیں گے۔ خدا کرےکل جماعتی کانفرنس ایٹمی دھماکوں سے بڑی کامیابی ثابت ہو اور ہمارے ملک پر ترقی کا نیا سورج طلوع ہو۔اقتصادی راہداری منصوبے کی مخالفت کرنے والے جان لیں کہ وہ ملک دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں کیونکہ ملک دشمن عناصر تو پہلے ہی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اول تو ترقی کا کوئی منصوبہ شروع ہی نہ ہو اگر ہو جائے تواسےپروپیگنڈے کے ذریعے اتنا متنازع بنا دیا جائے کہ یہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائے۔اسکی مخالفت کرنے والےجان لیں کہ80 کی دہائی کا دور کب کاختم ہو چکااب انکی اختلافی دال نہیں گلے گی اور صبح نو پاکستان میں طلوع ہوکر رہے گی۔انشاءاللہ
تازہ ترین