• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1994 میں میرے تایا چوہدری الطاف حسین پنجاب کے گورنر تھے اور منظور وٹو پنجاب کے وزیراعلیٰ۔ میں گورنمنٹ کالج میں پڑھ رہا تھا ا ور گورنر ہائوس میں 8اور 9نمبر کمرے میں رہا کرتا تھا۔ گورنر صاحب کی طبیعت خراب ہوئی تو وزیراعلیٰ ان کی طبیعت پوچھنے آئے۔ باتوں باتوں میں وزیراعلیٰ نے گورنر صاحب کو کہا ’’چوہدری صاحب! میں سیکرٹری انفارمیشن نوں سیکرٹری لائیوسٹاک لادیاں؟‘‘ گورنر صاحب نے کہا ’’اچھا کیوں ، ٹھیک کم نہیں کر رہیا‘‘ وزیراعلیٰ نے کہا ’’نہیں کام تو ٹھیک کر رہا ہے لیکن آج میں دساویوالہ (منظور وٹو صاحب کے گائوں کا نام جو ضلع اوکاڑہ میں ہے) جارہا تھا راستے میں اس نے گائے بھینس کے بارے میںاتنی معلوماتی گفتگو کی کہ مجھے لگا ہم تو اسے ضائع کر رہے ہیں‘‘ تو وزیراعلیٰ نے سیکرٹری کو اطلاعات سے ہٹا کر لائیوسٹاک کا انچارج بنا دیا۔ 1994 کے بعد سے حکومتی ایوانوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پرویز مشرف، یوسف رضا گیلانی اور بلاول بھٹو کے ساتھ بہت قربت میں معاملات کو دیکھا۔ فیصلہ سازی کا جو حال اوپر بیان کیا ہے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہرجگہ معاملہ ایسا ہی ہے۔ پاکستان کے سول اداروں کو بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے لیکن سول لیڈرشپ میں نہ اہلیت ہے اور نہ ہی خواہش۔ سیاسی جماعتیں، عدلیہ، پارلیمان، کابینہ اور بیوروکریسی یہ پانچ ادارے مل کر ملک کے سول نظام حکومت کی تشکیل کرتے ہیں لیکن ان پانچوں اداروں کا ڈھانچہ بھی ایسا نہیں کہ بنیادی اصلاحات کے بغیر نظام حکومت میں بہتری کی توقع کی جاسکے۔ موجودہ سیاسی قیادت کا جنم 1985 کے انتخابات سے ہوا۔ 36سال سے یہ ملک اسی سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی پروفائل پر نظر دوڑائیں 36 سال کی عمر میں وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بنے۔ چالیس کے پیٹے میں جب لوگوں کے کیریئر بمشکل بننا شروع ہوتے ہیں نوازشریف پاکستان کے وزیراعظم بن چکے تھے۔ اب ذرا اردگرد کے ملکوں پر نظر ڈالیں۔ نریندر مودی 1990میں بھارت کیا بی جے پی میں کسی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی لاہور میں لارنس روڈ پر کرائےکے گھر میں کتابیں پڑھ کر وقت گزاررہے تھے یا پھر احمد رشید اور نجم سیٹھی کے ساتھ گپ شپ لگاتے۔ نوازشریف اور ریجن کی باقی قیادت میں زمین اور آسمان کا فرق ہونا چاہئے تھالیکن ہو کیا رہا ہے جہاں نریندر مودی اور اشرف غنی کا ایجنڈا تاریخ میں ان کی ذاتی حیثیت اور ملک کے استحکام کے اردگرد گھومتا ہے وہاں نوازشریف صاحب کی ساری توجہ اقتداراپنی اگلی نسل کو منتقل کرنے کے گردگھوم رہی ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے جہاں انہیں بڑی اصلاحات کا سوچنا چاہئے وہ صرف سیاسی استحکام کو بڑے بڑے پراجیکٹس کی بیکنگ میں دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ معاملہ وزیراعظم تک محدود نہیں چاروں صوبائی وزرااعلیٰ وفاق سے ملنے والے ہزاروں کروڑ روپوں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ صوبائی قیادت اپنے وسائل میں اضلاع کو شریک کرنے پر تیار نہیں۔ پارلیمان ربڑ سٹمپ ہیں۔ کابینہ، پالیسی میکنگ انحطاط کا شکار ہے۔ دو عشروں سے پاکستان مردم شماری نہیں کراسکا۔ ملک کی آدھی آبادی جوانوں پر مشتمل ہے جو روزگار کے مواقع چاہتے ہیں۔ صحت اور تعلیم اور انصاف کے نظام چاہتے ہیں۔ پاکستان سیاسی اعتبار سے ایک پسماندہ ملک نہیں ہے دنیا میں کتنے اورممالک ہیں جہاں تین فوجی انقلاب آئیں اور تین دفعہ واپس جمہوریت بحال ہو اور نہ انقلاب لگاتے ہوئے خون بہے او رنہ ہی دوبارہ جمہوریت کی طرف سفر لہو سے عبارت ہو۔ یہ صرف پاکستان کے لوگوں نے کیا ہے۔ ہم نے اپنے سیاسی اداروں کو تہہ تیغ نہیں ہونے دیا یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ سول ملٹری تعلقات ایک بنیادی مسئلہ ہیں زیرنظر مضمون میں میرا مدعا سول ڈھانچے میں اصلاحات پر ہے۔ سول ملٹری تعلقات ایک علیحدہ مضمون کے متقاضی ہیں لیکن یہ اصول کہ فوج کو سول حکومتی ڈھانچے کے ماتحت ہونا چاہئے، ایک مہذب معاشرے کے لئے اہم شرط ہے لیکن یہ صرف خواہش کر لینے سے ہوگا نہیں۔ اس بنیادی خامی کو دور کرنے کے لئے سول حکومت خصوصاً وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو اپنے ذاتی مفادات سے آگے جانا پڑے گا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر وزیراعظم بجائے یہ سوچنے کے کہ اقتدار بچوں کو کیسے منتقل ہو، یہ سوچیں کہ سول اداروں میں اور فیصلہ سازی کے ڈھانچے میں کیا تبدیلیاں مقصود ہیں تو ان کا قداتنا بڑا ہو جائے گا کہ ان کے خاندان کو مستقبل میں بھی سیاسی اعتبار سے تنہا کرنا مشکل ہوگا لیکن اگر وہ ایک تنگ نظر سیاسی مفاد کے گرد گھومتے نظریئے کے ساتھ سیاست کریں گے تو ان کو بھی اس کا شدید نقصان پہنچے گا۔ پاکستان سعودی عرب یا ایران، لیبیا یا مصر نہیں ہے ہمارے ہاں لوگوں نے جمہوریت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جس طرح سے آزاد پنچھی پنجرے میں نہیں رہتا اسی طرح جن لوگوں نے اتنی آزادیاں دیکھی ہوں ان پر بادشاہت یا آمریت مسلط نہیں کی جاسکتی۔ وزیراعظم اوروزرائے اعلیٰ کو مل کر انتظامی تبدیلیوں پر لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لائیں، اندرون جماعت موثر انتخابی عمل کی بنیاد رکھیں۔ نئے صوبوں کی تشکیل کالائحہ عمل اختیار کریں، عدالتی نظام محض ججوں کی تعداد بڑھانے سے ٹھیک نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کو اپیل کورٹ بنائیں نئی آئینی عدالت تشکیل دیں جس میں 7یا 9جج ہوں اور تمام وفاقی اکائیوں کے برابر جج صاحبان ہوں جو ایک بینچ کے طور پر فیصلے دیں۔ ضلعی عدالتوں کو موثر بنائیں۔ یونین کونسل کو فیملی اور چھوٹے مقدمات کے فیصلوں کا اختیار دیں۔ ترقیاتی فنڈز پر صوبائی دارالحکومت کی اجارہ داری ختم کریں اور ضلعی حکومتوں کو انتظامی، سیاسی اور مالی خودمختاری دیں۔ بیوروکریسی کاڈھانچہ سراسر عمومی ہے ایک شخص ایک دن تعلیم کا محکمہ دیکھتا ہے تو وہی شخص دوسرے دن توانائی کا انچارج بن جاتا ہے۔ اس نظام کا سراسر نقصان ہے گریڈ 19کے بعد تقرریاں محض پروفیشنل پروفائل پر ہونی چاہئیں۔ حکومتوں کا جدید دور میں کام نوکریاں دینا اور ادارے چلانا نہیں ہے بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جہاں پرائیویٹ شہری ادارے بنائیں اور نوکریاں پیدا ہوں۔یہ عشرہ موجودہ سیاسی قیادت کا آخری موقعہ ہے دیکھنا یہ ہے اور انہیں سوچنا یہ ہے کہ تاریخ کا ورق جب پلٹا جائے گا اور ان کے نام اور تذکرہ مثبت ہوگا یا منفی کم از کم مجھے لگتا ہے کہ اصل حاصل یہی ہے کہ کل جب اس میراتھن میں ڈنڈا اگلے کھلاڑی کو دیں گے تو وہ آپ کی دوڑ سے مطمئن ہوگا یا نہیں۔
تازہ ترین