• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی مراسلہ…ڈاکٹر انیلا قیوم
ہر سال دنیا میں مارچ کے مہینے میں یوم خواتین بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے بڑے بڑے پروگرام منعقد کئے اور ان پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد صنف نازک میں اس شعور کی بیداری ہے کہ عورت ہونا باعث عار نہیں بلکہ باعث افتخار ہے۔ ابتدا میں یہ دن کام کرنے والی خواتین کو روزگار کی فراہمی اور ترقی کیلئے یکساں مواقع و حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد سے منسوب تھا کیسی حیران کن بات ہے کہ نسل انسانی کی بقا اور خاندانوں کی تربیت کا سبب بننے والی عورت کو ا ٓج اپنے حقوق کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے افسوس صد افسوس غریب اور متوسط خواتین کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور ان مسائل کے حل کیلئے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آتی اور نہ اس طرف توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام اس کا سرکاری مذہب ہے، اسلام نے جتنے حقوق خواتین کو دئیے ہیں شاید ہی کسی دوسرے مذہب اور معاشرے میں خواتین کو حاصل ہوں، بحیثیت ماں، بیٹی، بہن، بیوی اور کسی عام خاتون کا کردار متعین کرکے عورت کی عزت اور ناموس کی حفاظت کی ہے اگر معاشرہ حکومت اور قانون ساز ادارے اسلامی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو تمام مسائل جن کا اس وقت خواتین کو سامناہے وہ سب حل ہوجائیں گے لیکن افسوس خواتین کے حقوق کے نام پر کام کرنے والی بعض این جی اوز فنڈز تو اکھٹا کرلیتی ہیں لیکن مسائل کے حل کیلئے کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ بحیثیت مسلمان جب ہم اسلامی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو نبی کریمﷺ پر ایمان لانے والی پہلی ہستی خاتون کی ہی ہے جسے دنیا حضرت خدیجہ الکبریٰ کے نام سے یاد کرتی ہے اور آپ نہ صرف ایمان لائیں بلکہ پہلی وحی کے نزولی کے بعد آپ کو حوصلہ بھی دیا اور اس سے قبل خود نبی کریمﷺ کو نکاح کا پیغام بھیج کر عورت کے حق آزادی کی ایک مثال قائم کی اور محبت و وفا کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک ایک عظیم مثال ہے، اگر آج ہم حضرت خدیجہ الکبریؓ کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے ملک پاکستان کی خواتین کیلئے راہ عمل متعین کریں معاشرے میں محبت و اخوت کا ماحول فراہم کریں گے نبی کریمﷺ کی سیرت مطہرہ پر عمل کرکے وہی ماحول بنائیں گے جس میں زندگی کے حق سے محروم زندہ درگور کی جانے والی عورت کو اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے عورت کو خاندان کا مرکز قرار دیا گیا ہو ،اس دور میں عورت کے ذہن میں غلط فہمی کا تصور تک نہ آیا کہ گھر قید خانہ ہے،اس دور کی عورت نے گھر کو جنت بنا کر ایک ایسا معاشرہ بنایا جو آج بھی دو ارب لوگوں کیلئے مثالی نمونہ ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ عورت کے ساتھ بہت بڑا سماجی ظلم یہ ہے کہ اس کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے زچگی کے وقت بارہ ہزار عورتیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ لڑکیاں تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، جبری شادی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے۔ قیدی خواتین سے عملے کی جانب سے سختی اور انصاف یا فیصلے میں تاخیر بہت اہم معاملہ ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ ساس بہو کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور محبت کے جذبات کا ہونا ضروری ہے اس طرح عورت کو دوسری عورتوں میں نقص کی وجہ سے موٹاپا یا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے مذاق کا نشانہ نہ بنایا جائے خواتین کو مہر اور نکاح نامہ اور وراثت کے شرعی احکامات سے باخبر کیا جائے لاعلمی کی وجہ سے عورت وراثت سے محروم رہتی ہے، اس طرح ہم معاشرے میں اسلام کی عظیم خواتین شخصیات کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر معاشرے کوشعور و آگہی فراہم کریں گے تو یقیناً ایک دن ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ اور خواتین کے حقوق کی ادائیگی میں مثالی معاشرہ بن جائے گا۔
تازہ ترین