• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی …تنویر زمان خان، لندن
آج کا کالم حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی کتاب ’’سورج پہ کمند‘‘ پر ہے جو کہ پاکستان کی ترقی پسند طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن NSFکی کہانی ہے۔ اس کتاب کی جلد اول حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ یہ ایک تقریباً چھ سو صفحات کی کتاب ہے جس میں مختلف ادوار میں رہنے والے کارکنوں نے تنظیم کے ساتھ اپنے اپنے تجربات اور وابستگی کے حوالے سے اپنا اپنا دور قلم بند کروایا ہے۔ یوں تو کوئی بھی طلبہ تنظیم کا خصوصی طور پر ترقی پسندوں کا علیحدہ سے توڑ کے ذکر ممکن نہیں کیونکہ بائیں بازو کی تنظیموں کے تمام ادوار متحدہ محاذوں سے عبارت ہیں۔ وہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں کے الیکشن کی صورت میں ہوں، یا طلبہ کے مخصوص تعلیمی و تدریسی ایشوز ہوں یا ملکی ایشوز ہوں طلبہ تنظیموں نے مل کر جدوجہد کی ہے۔ اسلئے یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ پاکستان کی طلبہ تحریک کا سہرا کسی ایک تنظیم کے سر ہے۔ این ایس ایف بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ہے جس نے کارل مارکس، لینن اور مائوزے تنگ کے نظریات کو اپنایا۔ یہ بنیادی طور پر تقسیم کے فوراً بعد بننے والی ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن میں سے نکلنے والی تنظیم تھی جس کے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے ساتھ لنک تھے، یوں تو پاکستان کی تقریباً تمام بڑی طلبہ تنظیموں کے ساتھ ایسا ہی ہے خواہ وہ دائیں بازو کی تنظیمیں ہوں یا بائیں بازو کی۔ ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی پارٹی یا ملکی سیاست کا ایجنڈا رکھنے والا کوئی نہ کوئی گروپ ضرور موجود ہوتا ہے جو تنظیمیں پارٹیوں سے آزاد یا مبرا رہتی ہیں وہ یا تو اپنے ادارے سے باہر موثر نہیں ہوتی یا پھر ان کا وجود دیرپا نہیں رہتا۔ ایسا تیسری دنیا کی تمام طلبہ تحریکوں کا خاصہ ہے وہ ایران ہویا انڈیا، وینزویلا ہو یا چلی، کیوبا ہو یا چین وغیرہ۔ الغرض تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں طالبلعموں نے نیشنل تحریکوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی بائیں بازو کی طلبہ تحریک میں این ایس ایف نے بہت موثر کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ کے زیراثر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن 1936ء سے کام کررہی تھی پاکستان بننے کے فوراً بعد مشرقی پاکستان اور سندھ میں طلبہ تنظیموں کی ابتدا ہوئی ہے کیونکہ یہ علاقے پاکستان بننے کے فوراً بعد اپنی اپنی مخصوص شکلوں میں احساس محرومی کا شکار ہوگئے تھے۔ بنگال میں بنگالہ مسلم نیشنل ازم اور قومی زبان کے سوال پر سنجیدہ مسائل کھڑے ہوئے۔ بنگال میں اردو زبان لاگو کردی گئی جوکہ آزادی کی اکثریت کے لئے اجنبی زبان تھی اسطرح مشرق پاکستان میں آزادی کے چند ماہ بعد ہی ایسٹ پاکستان مسلم سٹودنٹس لیگ وجود میں آئی۔ شیخ مجیب الرحمٰن اسکے سیکرٹری تھے جو اس وقت یونیورسٹی کے طالبعلم تھے۔ پورے مشرق پاکستان میں قومی زبان کا مسئلہ کھڑا ہوا، طلبہ نے ایکشن کمیٹی بنائی جسے ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی۔ چونکہ اس وقت مذہبی جماعتوں نے تو جناح، مسلم لیگ اور پاکستان کی مخالفت کی تھی اس لئے ان کی حیثیت سیاسی سطح پر کمزور تھی۔ کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کی حمایت کی تھی اسلئے ان کا موثر وجود تھا اور یہ طلبہ تنظیموں اور طلبہ تحریک کے قائل تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانے میں اور بعد کے وقتوں میں بائیں بازو کی این ایس ایف سمیت جتنی بھی تنظیمیں بنیں ان پر طلبہ مسائل کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل اور ملکی سیاست کا گہرا اثر تھا بلکہ عالمی سیاست بھی طلبہ تنظیموں کی ٹوٹ پھوٹ میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔ مثلاً1965ء میں این ایس ایف بھی پروچین اور پرو روس کی گروہ بندی کا شکار ہوئی اور دو گروپ بن گئے۔ معراج گروپ اور کاظمی گروپ۔ بعد میں معراج گروپ نےپیپلزپارٹی کو سپورٹ کیا اور کاظمی گروپ نے نیشنل عوامی پارٹی کو، گوبعد میں کاظمی گروپ بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہوگیا۔ لیکن این ایس ایف میں موجود نظریاتی کارڈز تنظیم دلاتا رہا اوررشید حسن خان جیسے لوگ اسکی قیادت کرتے رہے اس زمانے میں مختلف صوبوں میں صوبائی سطح کی بہت سی طلبہ تنظیمیں بنیں جو مختلف اتحادوں میں NSFکے ساتھ شامل رہیں یا ان کے باہمی تنظیمی سطح پر مختلف اتحاد بنتے رہے۔ پنجاب میں نیشنلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن NSOابھری۔ سندھ میں سندھی شاگرد تحریک اسی طرح پشتون اور بلوچ تنظیمیں بنیں۔ جب بنگلہ دیش بن رہا تھا تو بائیں بازو کی مزدور کسان پارٹی اور این ایس ایف نے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن کی بھرپور مخالفت کی گوکہ شروع میں این ایس ایف نے بھٹو کی بھرپور سپورٹ کی لیکن جلد انہیں احساس ہوگیا کہ بھٹو اپنے وعدوں سے پھر رہے ہیں اور پھر جب بھٹو نے لانڈی کی مزدور تحریک پر دھاوا بولا تو این ایس ایف کے رشید حسن خان سمیت لیڈروں اور کارکنوں کو زیرزمین جانا پڑا۔ این ایس ایف اب بھی چل رہی ہے لیکن ان کے رہبر نظریاتی تربیت کے زیادہ قائل ہیں۔ سورج پر کمند کتاب ایک نہایت عمدہ کاوش ہے جس نے پاکستان کی طالعبلم سیاست کے مختلف پہلوئوں اور مسائل کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے حالیہ ماحول اور حیثیت کو نمایاں کیاہے مختلف افراد کے انٹرویوز اور اظہار خیال نے خوبصورت نقشہ کشی ہے۔
تازہ ترین