• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے تکبیر … پروفیسر مسعود اخترہزاروی
شادی بیاہ کی فضول رسمیں اس وقت دنیا میں ایسے چھ بڑے بڑے مذاہب ہیں جو تقابل ادیان کے طور پر مختلف تعلیمی درسگاہوں اور تحقیقی اداروں میں پڑھائے جاتے ہیں اور وہ ہیں اسلامِ، عیسائیت، یہودیت، ہندو ازم، سکھ ازم اور بدھ ازم۔ مختلف ادیان کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد دنیا بھر کے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ اور سلیقہ صرف اسلام کی تعلیمات میں موجود ہے۔ جہاں اعتقاد سے لے کر عبادات، معاملات اور اخلاقیات تک ہر پہلو پر رہنمائی موجود ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا خاصہ حصہ سماجی اور معاشرتی زندگی کے درخشاں اصولوں پر مبنی ہے۔ عمومی طور پر اسی کی دلکشی بہت سارے لوگوں کے قبول اسلام کا سبب بنی لیکن جب ہم اپنے مسلمان معاشروں پر نظر دوڑائیں تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ہم بھکاری اور دریوزہ گر ہیں کوئی رسم اِدھر سے لی اور کوئی اُدھر سے اٹھا لی اور اس طرح اپنے معاملات چلا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ زندہ قومیں اپنی ثقافت اور تاریخی ورثہ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ برطانیہ نے تقریبا ایک صدی تک برصغیر میں اپنا راج قائم رکھا۔ اس دوران پانچ چھ نسلیں گزرگئیں لیکن انہوں نے اپنی ثقافت، معاشرتی اقدار اور تاریخی ورثہ کی بھرپور حفاظت کی۔ اپنی بہت سی روایات اور عادات و اطوار ہمیں دے آئے لیکن زبان، لباس اور سماجی روایات سمیت خود اپنایا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بیاہ سے لے کر موت مرگ تک وہ اپنی سماجی حیثیت کو برقرار رکھتے ہیں اور اسی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج ہم چند ایسی رسومات کا ذکر کرنے لگے ہیں جو غیر اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ متوسط اور غریب طبقات کے لئے سوہان روح بن چکی ہیں۔ ان میں سے ایک منگنی کی رسم ہے۔ اگر تو دو خاندانوں کے درمیان شادی کی بات پکی ہونے کا نام’’منگنی‘‘ رکھ بھی لیا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اب تو منگنی باقاعدہ طور پر ایک منعقد کی جانے والی رسم بن چکی ہے جس میں اعزہ و اقارب اور دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے۔ تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں۔ لڑکا اور لڑکی اس وقت غیر محرم ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں کواکٹھا بٹھایا اور ملایا جاتا ہے۔ زیورات تیار کئے جاتے ہیں اور پھر باقاعدہ شادی کیلئے سالوں کی میعاد طے کر لی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف نئی نسل کا منٹوں اورگھنٹوں میں ذہن بدل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں کئی بچیوں کو ’’منگنی‘‘ ٹوٹنے کے نام پر ناکردہ گناہ کی سزا دی جاتی ہے۔ کئی ایک بلا ثبوت اوربد اخلاقی پر مبنی جملے کسے جاتے ہیں کہ لڑکی میں کوئی برائی یا خامی ہو گی تو اسی لئے منگنی ٹوٹ گئی ہے۔فضول خرچی کے ساتھ ساتھ مزید یہ کہ منگنی ٹوٹنے کی صورت میں ایسے واقعات خاندانی رنجشوں اور باہمی دوریوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔ جبکہ اس طرح منگنی کی تقریب منانے کی مستند اسلامی تاریخ اور قرون اولی کے مسلمان معاشروں میں کوئی روایات نہیں ملتیں۔ نکاح، ولیمہ اور شادی کے انعقاد کیلئے خوشی کے شادیانے ہماری اسلامی روایات کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ ہمارے نبیﷺ نے تو یہاں تک فرمایا کہ ’’نکاح میری سنت ہے اور جو کوئی میری اس سنت سے دور رہے گا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘‘۔ ’’تیل مہندی‘‘ بھی ایک ایسی رسم ہے جو بہت ہی مشہور و معروف ہے۔ اسلامی روایات میں ہمیں اس کا کوئی حوالہ اور ثبوت تو نہ ملا البتہ ہندو ازم میں مذہبی حوالے سے مہندی رنگ کو اہمیت حاصل ہے۔ ان کے مذہبی رہنما بھی اکثر اسی رنگ کے لباس کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر بھی تیل مہندی کی رسم اسی کلچر کا حصہ ہے۔ ہم شادی اسلامی روایات کے مطابق کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ کچھ ایسی غیر اسلامی رسومات کی ملاوٹ کردیتے ہیں جو اس کی حقیقی روح پر بھی قدغن لگا دیتی ہیں۔ غیر اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کیلئے یہ بے جا مالی بوجھ بھی ہے۔ نہ کریں تو ناک کٹے گی اور کریں تو جیب اور پیٹ کٹے گا اور قرضوں کا بوجھ مزید بڑھے گا۔ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒوضع میں تم ہو نصاری، تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہودیوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہواپنی لخت جگر کو رخصت کرتے ہوئے اظہار محبت کے طور پر جہیز دینا ہمارے پیارے نبیﷺ کی سنت مطہرہ ہے۔ آپؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرہ کو روئی سے بھرا ہوا موٹے کپڑے کا بستر، چمڑے سے بنا ہوا دسترخوان اور تکیہ، مشکیزہ،کوزہ اور نرم اون کا بنا ہوا ایک پردہ عنایت فرمایا تھا لیکن آج کل جہیز ایک وبال جان بن چکا ہے۔ بعض اوقات تو لڑکے والے باضابطہ سامان جہیز کی لسٹ بنا کر دیتے ہیں اور جہیز کم لانے کی صورت میں عورتوں کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ عموما ایسا نہیں ہوتا لیکن اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ جہیز کے نام پر کچھ بھکاری بھی ہمارے سماج میں نظر آتے ہیں جو کہ باعث شرم ہے۔ یہ اسراف پر مبنی ایسی فضول رسم بن چکی ہے جس نے غریب اور متوسط طبقے کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔وقت کی ناقدری بھی ایک قبیح رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بڑے لوگوں کا وقت کی پابندی نہ کرنا اور تاخیر سے آنا ایک فیشن بن چکا ہے جس پر فخر کیا جاتا ہے۔ اور جو بیچارے وقت پر آجائیں ساری سزا انہیں بھگتنی ہوتی ہے جبکہ بحیثیت مسلمان ہرروز کے معمولات ہمیں پابندئی وقت کی تلقین کرتے ہیں۔اسلام سادہ اور پروقارزندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے لیکن ہم نے معاشرے میں بیشمار خود ساختہ پریشانیاں پیدا کی ہوئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اور اسی طرح کی دیگر فضول رسومات سے جان چھڑائی جائے۔ سنت مطہرہ کو اپناتے ہوئے جہیز میں اسراف کو ختم کر کے سادگی کو رواج دیا جائے۔ کچھ لوگ تو دولت کے نشے میں مست ہو کر یہ سارا کچھ کر لیتے ہیں لیکن ان معاشرتی روایات کو جاری رکھنے کیلئے عام لوگ سخت مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔
تازہ ترین