• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسکور…سید یحییٰ حسینی
زندگی میں ہر چیز آپ کی مرضی اور منشاء کے تابع نہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کبھی نا چاہتے ہوئے بھی بہت سی باتیں دل سے نہیں اترتیں، کبھی کبھار مزاج کی تلخیاں بہت زیادہ بڑھ جاتیں ہیں، افسوس حد سے نکل جاتا ہے۔ کچھ اس مرتبہ میرے ساتھ بھی ہوا، جس کے بعد باوجود کوشش کہ میں خود کو کالم لکھنے کے لئے کئی بار کوشش کے آمادہ نہ کر سکا، گزشتہ ڈیڑھ ماہ کی بات کروں تو خاصے ہنگا مہ خیز رہے، پہلے پاکستان سوپر لیگ اور پھر ویسٹ انڈیز کا دورہ پاکستان ۔ اس کے باوجود کالم نہ لکھنے کی ایک خاص وجہ تھی ، اور وہ تھا اردگرد کا ماحول جسے ہر بار دیکھ کر سوائے افسوس کہ کچھ حاصل نہیں ہو رہا تھا۔1998 میں جب پہلی بار بطور صحافی نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے میڈیا باکس میں داخل ہوا، تو انیس الدین خان، سمیع الحسن برنی ، وحید خان ، عبدالماجد بھٹی، مرزا اقبال بیگ، شاہد ہاشمی اور رشید شکور سمیت کئی صحافیوں کو پیشہ وارانہ ذمہ داریاں شاندار انداز میں نبھاتے دیکھا۔ آج کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اب تاریخی شارجہ اسٹیڈیم سے شروع کر لیتے ہیں ، دوران میچ تو پریس باکس بھرا دکھائی دیتا تھا، البتہ وہاں کام سے زیادہ تفریح کا ماحول تھا، گلے میں میڈیا کارڈ لٹکائے خواتین اور مرد صحافتی اقدار کا مذاق اڑاتے دکھائی دیتے۔ شارجہ کے پریس کانفرنس روم میں بمشکل آٹھ کرسیوں کی ایک ہی لائن بنتی تھی، وہاں بھی صحافیوں کو اس وقت خفت سے دوچار ہونا پڑتا، جب گلے میں میڈیا کارڈ لٹکانے والی خواتین اپنے رشتے دار خواتین کو ان کرسیوں پر بٹھا کر اس وقت ذرا شرم محسوس نہیں کرتیں ، جب خواتین کے احترام میں صحافی ان سے کرسیوں پر بلاوجہ تشریف فرما خواتین کو اٹھانے کی بابت سوال تک نہ کرتے۔ دبئی کرکٹ اسٹیڈیم کے پریس باکس میں ماحول قدرے پر سکون ملتا تھا، وجہ وہاں موجود گنجائش اور سینئر صحافیوں کا ایک ساتھ بیٹھنا بھی تھا، جن کے درمیان باوجود کوشش میڈیا کارڈ کے حصول میں کامیاب افراد جگہ نہیں بنا پاتے تھے۔ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں نئی بلڈنگ بہترین ہے، جہاں مقامی صحافی ہی فرمائشی ایکریڈیشن کارڈ بنانے والوں سے زیادہ ہی دکھائی دیتے ہیں، البتہ طویل عرصے بعد نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پی ایس ایل فائنل کی شکل میں بین الاقوامی سطح کا میچ منعقد ہوا، تو ایکریڈٹیشن کارڈ اتنی آسانی سے بن گئے، لگا جیسے راشن کارڈ بنے ہوں، ایکریڈٹیشن کارڈ کی بندر بانٹ کا یہ حال تھا کہ اس کے حصول میں کامیاب شخص کو یہی نہیں معلوم تھا کہ اسٹیڈیم میں میڈیا باکس کس طرف ہے۔ یقیناً ان سطور کو پڑھنے کے بعد وہ چند لوگ جو کہیں نا کہیں سے سفارش کروا کر ایکریڈٹیشن کارڈ کے حصول میں کامیاب ہوئے تھے ، دل ہی دل میں بڑ بڑا رہے ہونگے، یہ کی ابکواس ہے۔ دراصل یہی دل خراش حقیقت ہے، پاکستان میں ایکریڈٹیشن کارڈ کی۔ دبئی میں پاکستان کی ہوم سیریز میں کچھ لوگوں کی سفارش پر ایسے اشخاص کو ایکریڈٹیشن کارڈ بنوانے کا موقع ملا، جو وہاں ملازمت یا بزنس کرتے ہیں، البتہ صرف ڈرائیور کی بطور خدمات پیش کرنے کے عوض انھیں صحافیوں کی صف میں شامل ہونے کا موقع مل گیا، افسوس یہ وہ لوگ ہیں جن کو یہ پتہ نہیں ہوتا، میچ کن دو ٹیموں کے درمیان ہے، ہوم سیریز اور پی ایس ایل کے دوران صحافیوں کو دورے پر دبئی بھیجنا خالصتاً پی سی بی کا صوابدیدی اختیار ہے، البتہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کچھ پیسے پی سی بی میڈیا گائیڈ بنانے پر بھی خرچ کر دے۔ خیر سوشل میڈیا پر خود کو بطور صحافی متعارف کروانے والے حضرات کو صرف میں اتنا ہی کہوں گا، بیچارے کاش کبھی خبر بھی دے دیا کریں ، جو دراصل ایک صحافی کا اصل کام ہے، لیکن اگر کہیں نہ کہیں سے وہ خبر نکال بھی لیں ، تو چاپلوسی کرکے ایکریڈٹیشن بنوانے کے لالے پڑ سکتے ہیں ،اسی لئے شاید چیئرمین پی سی بی نجم عزیز سیٹھی نے اسکور میں دوران انٹرویو کہا تھا، پاکستان میں کھیلوں کے صحافی چند ہی ہیں، جو حقیقت بھی ہے۔ باقی آپ سمجھ دار ہیں ۔
تازہ ترین