• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1857سے 2018تقریباً160سالدنیا تبدیل ہو گئیبرصغیر کا نقشہ اتھل پتھل ہو گیاکھانا پینا، رہن سہن، پہننا اوڑھنا، بولنا چالنا، ذرائع آمد و رفت، رسوم و رواج ، ذرائع ابلاغ ، زبان و بیان کے ڈھنگ، علاج کے طریقے، شہروں اور گھروں کے نقشے، تعمیر کے طریقے غرضیکہ سب کچھ بدل گیا.........سوچنے کے انداز کیا رویے تک کچھ سے کچھ ہو گئے.........نہیں بدلے تو قانون سازوں نے قوانین نہیں بدلے۔بیشمار بے کار گلے سڑے فرسودہ بیمار بلکہ مر چکے قوانین آج بھی ہم پر مسلط ہیں تو قرار کیسے نصیب ہو؟زمانہ ایسا ہے کہ اشیاء ،آلات ، اوزار اور پیشے تک تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ قاصد کبوتروں سے لے کر ڈاکیے تک کو تو چھوڑیں۔ ٹیلیکس اپنے اوپر ٹیرز سمیت غائب ہو ئی اور پھر فیکس بھی عجائب گھر کی زینت۔ کھانے میں پیزے، پاستے، نوڈلز، برگر، سینڈوچ، پینے کو لسیاں، کانجیاں، ستو، نہیں کولوں کی بھرمار،ساڑھیوں والیاں جینز پہنے سکوٹروں پر سوار، ویر میرا اب گھوڑی نہیں کرائے کی لموزین پر چڑھتا ہے، چھتیں نیچی ہو کر سروں سے آ لگیں اور گھروں میں ٹی وی لائونج گھس کر سب سے اہم کمرہ قرار پایا اور پھر ہر بیڈ روم ہی ٹی وی لائونج بن گیا۔چند عشروں پہلے تک کہاں تھا فلش سسٹم کہ برصغیر کے باسیوں نے تو ہینڈ پمپ نہ دیکھا اور جب دیکھا تو اسے ’’بمبا‘‘ کہا کہ رواج کنوئیں کا تھا۔ غالب جیسا جینیئس ماچس دیکھ کر بوکھلا گیا تھا اور جب گورے نے ریل کی پٹڑی بچھانی شروع کی تو ہمارے بزرگ دور کی کوڑی لائے اور کہا صاحب لوگ ہندوستان میں لوہے کے پٹے ڈال رہے ہیں تاکہ ہندوستان کو گھسیٹ کر انگلستان لے جا سکیں۔ستر، اسی، پچاسی سال پرانی فلمیں دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کسی اور سیارے پر کسی اور مخلوق کے ساتھ شوٹ کی گئی تھیں۔ نہ ماشکی رہے نہ پینجے ، پگڑیاں غائب جوتے تبدیل، ذہن پر زور دیں، یاد کریں کہ آج کے سب سے بڑے کریز کرکٹ کا پہلا میچ کب ہوا اور اس سے پہلے اس خطہ کے مقبول ترین کھیل کون سے تھے اور کہاں گئے؟قیام پاکستان پر ہجرتوں کی خاصی فوٹیج موجود ہے ۔ اسے بھی غور سے دیکھیں اور پھر اپنے اردگردیہ حلیے ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کریں۔ دور کیا جانا 50,60کی دہائیوں میں بنائی گئی’’ٹھنڈی سڑک‘‘ ،’’پینگاں‘‘،’’پلکاں‘‘ ،’’یکے والی‘‘ ،’’مٹی دیاں مورتاں‘‘ ٹائپ فلمیں دیکھیں، ان میں ان دنوں کا لاہور ڈھونڈیں اور اگر کہیں مل جائے تو مجھے بھی مطلع فرمائیں۔ابھی کل کی بات ہے جب پاسپورٹ عجوبہ تھا اور ٹیلی فون سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا اور آج کسی کو احساس تک نہیں کہ موبائل فون نے ہماری لغت تک تبدیل کر دی کہ ہر نئی ایجاد اصلاحات کی یلغار ساتھ لاتی ہے، لائف سٹائل کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتی ہے ، انسان خود الٹ پلٹ جاتے ہیں، مختصراً یہ کہ یہ رام کہانی شیطان کی آنت سے بھی کہیں لمبی ہو سکتی ہے اور اس رطب و یابس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کیا ہم لوگ خصوصاً ہمارے مختلف قسم کے قوانین اس تیزی سے تبدیل ہوتی، پل پل بدلتی زندگیوں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں؟اور کیا آٹھارہ سو فلاں، اٹھارہ سو ڈھمکاں میں بنائے گئے قوانین 2018 سے ’’ انصاف‘‘ کر پا رہے ہیں؟ اور اگر یہ آئوٹ آف ڈیٹ قوانین ہی غیر منطقی اور غیر منصفانہ ہیں تو کون سا قانون؟ کیسا انصاف اور کہاں کے قانون نافذ کرنے والے؟سرکس کا سماں ہے۔میں قوانین سے واقف نہیں، صرف کامن سینس کی بات کر رہا ہوں کہ کسی بھی عہد میں اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئے بغیر کوئی بھی قانون کیسے ’’ڈلیور‘‘ کر سکتا ہے؟ ’’ڈلیوری‘‘ نارمل ہو ہی نہیں سکتی، ہر کیس سیزیرین نہ ہو گا تو کیا ہوگا؟یہ تو بجلی، گیس، پانی کے کنکشن بلکہ ٹائیلٹ کے بغیر گھر بنانے والی بات ہے جو سن’’ 18سو فلاں ‘‘ میں تو ممکن تھا.........آج نا ممکن ہے ، مضحکہ خیز بھی اور یہ مضحکہ خیزی معاشرہ میں قدم قدم پر قیامت ڈھا رہی ہے لیکن قانون سازوں کی تو دنیا ہی نرالی ہے۔

تازہ ترین