• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سیاست اور پاکستانی جمہور کی اس وقت جو حالت ہے، وکاس شرما راز کا یہ شعر سوجھتا ہے۔
ایسی پیاس اور ایسا صبر
دریا پانی پانی ہے
جانے کیوں آج ایک اعتراف کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ کالم لکھتے وقت میں بہت یک رُخا ہو جاتا ہوں۔ جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت۔ انسانی حقوق، انسانی حقوق، انسانی حقوق۔ بھئی دنیا لاتعداد مظاہر اور لاتعداد موضوعات سے عبارت ہے۔ کوئی خاص موضوع خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، اہمیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اور پھر اس موضوع پر بھی صرف ایک نقطہ نظر۔ لیکن جب اخبار پڑھتا ہوں یا پھر غلطی سے کبھی ٹی وی دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے تو احساسِ اعتراف کچھ کم ہو جاتا ہے کہ ہر طرف سیاسی موضوعات اور اپنی اپنی جہت کے دفاع کی دوڑ لگی ہے، گویا پوری قوم سیاست سیاست کھیل رہی ہے۔ سیاست سیاست کے کھیل میں آجکل انصاف انصاف کا تڑکہ بھی لگ جاتا ہے۔
محبوب عزمی کا شعر ہے
موقوف ہے کیوں حشر پہ انصاف ہمارا
قصہ جو یہاں کا ہے تو پھر طے بھی یہیں ہو
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا یا زیادہ منا سب یہ کہنا ہو گا کہ یہ تو شعر معترضہ تھا۔ سو انصاف کا موضوع بھی آجکل ضرورت سے زیادہ زیر بحث رہتا ہے۔ آج میں آپ کے ساتھ ایک نیا مشاہدہ شیئر کر رہا ہوں۔ یہ ایک فلسفیانہ سوال ہے۔ کیا دنیا انصاف پر قائم ہے یا نظم پر؟ کیا قوانین قدرت اس کائنات کو لاتعداد متحارت و موافق قوتوں کے درمیان توازن کے اصول پر قائم کئے ہوئے ہیں؟ کیا کائنات اچھائی و اخلاقیات جیسے غیر معروضی تصورات پر قائم ہے؟ جب زمانہ طالبعلمی میں بین الاقوامی قانون کے کورس میں اقوم متحدہ کے اساسی اصول کے بارے میں پڑھایا جاتا کہ اقوام متحدہ نظم کے اصول پر قائم ہے نہ کہ انصاف کے اصول پر تو مثالیت پسند طبیعت پر بہت نا گوار گزرتا۔ جب یہ پڑھنے کو ملتا کہ دنیا کے امن کا ضامن دنیا کی پانچ بڑی قوموں کے درمیان طاقت کا توازن ہے نہ کہ انصاف، تو جی چاہتا کہ ایسے امن کے خلاف نعرہ بلند کر دوں کہ، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔زمانہ طالبعلمی کے دوران حقیقت پسندی کے ساتھ اس طرح کا تعارف صرف مصافحہ تک ہی محدود رہتا، آئیڈیلزم نے کبھی معانقے تک کی نوبت نہیں آنے دی۔ لیکن ایسے مظاہر ذہن کے کسی گوشے میں چھپ کر بیٹھ جاتے۔
چند سال پہلے آئیڈیلزم کو مزید جھٹکا لگا۔ مشرقِ وسطی کے بہت سے ممالک میں بادشاہتیں اور آمریتیں قائم تھیں۔ امریکہ کی طرف سے صدا بلند ہوئی کہ مشرقِ وسطی میں جمہوریت لانی چاہئے۔ پھر وہاں پر عرب اسپرنگ کے نام سے عوامی تحریکیں پھوٹیں (جانے ان تحریکوں کے پیچھے حقیقی عوامی جذبات کا کس قدر عمل دخل تھا اور سی آئی اے کا کتنا)۔ لیکن عرب اسپرنگ کا انجام دیکھ کر خوف آتا ہے۔ کئی ایک ممالک اور انکے لوگ تباہ و برباد ہو گئے لیکن وہاں جمہوریت نہیں آئی۔ صرف ایک ملک شام کی مثال لے لیں۔ شام کے لوگ اسی طرح اچھی بری زندگی گزار رہے تھے جیسے ہم، لیکن ایک نظم تھا، امن وامان تھا۔ آمرانہ ہی سہی، لیکن حکومت کی رٹ تھی۔ عرب اسپرنگ سے متاثر ہو کر ایک بچے نے شام کے ایک دور افتادہ شہر میں اپنے صدر کے خلاف وال چاکنگ کر دی۔ اسکے بعد کے پے در پے چھوٹے چھوٹے واقعات نے شام میں خانہ جنگی کا آغاز کیا اور کئی سال گزرنے کے بعد اب یہ حالت ہے کہ جمہوریت تو شام میں نہیں آئی لیکن دنیا کے دس پندرہ کے قریب ممالک اور غیر ریاستی جنگجو تنظیموں نے شام کو آپس میں بانٹا ہوا ہے۔ لاکھوں نہتے شہری ہلاک و بے گھر ہو چکے ہیں، شہروں کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ انسانی تباہی کی وہ داستانیں شام میں رقم ہوئی ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سیاست کے بعد اگر انصاف پر نظر دوڑائیں تو وہاں بھی شاید یہ سوال پیچھا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کتابوں اور تھیوری کی حد تک تو دنیا بھر کے نظام ہائے انصاف کا مقصد انصاف کی فراہمی ہے لیکن یہ بات کیا عملی طور پر درست ہے؟ قانون کی تھیوری اور عمل دونوں کا مناسب تجربہ ہونے کے بعد بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ عدالتی نظام کا مقصد بھی شاید معاشرے میں نظم قائم رکھنا ہے نہ کہ انصاف دینا۔
سیاست اور انصاف کے میدانوں سے ذرا مزید باہر آئیں، کونسا شعبہ ہائے زندگی ہے جو انصاف پہ قائم ہے۔ کیا کاروباری دنیا انصاف پر قائم ہے؟ کیا صحافت واقعتاََسچ پر مبنی ہے؟ کیا یونیورسٹیاں صحیح معنوں میں تعلیم دے رہی ہیں؟ کیا عوام کے منتخب نمائندے عوام کی فلاح کیلئے قوانین بناتے ہیں؟ کیا بیوروکریسی ریاست کی بھلائی کا خیال رکھتی ہے؟ کیا این جی اوز انسانیت کی فلاح کر رہی ہیں؟ کتابیں ان سوالوں کا جواب کچھ اور دیں گی، ان شعبوں سے وابستہ افراد سے آپ کو ان کے جواب کچھ اور ملیں گے، لیکن اپنے عملی تجربے کی بنیاد پر آپ خود غور کریں تو شاید کسی اور نتیجے پر پہنچیں۔ اور اگر آپ کا جواب وہی ہے جو میرے مشاہدے کے مطابق ہے تو کیا پھر ان تمام اداروں کو ختم کر دینا چاہئے؟ اس کا جواب یقیناََ نفی میں ہو گا کیونکہ یہ تمام ادارے اگرچہ وہ کام نہیں کر رہے جن کے لئے یہ قائم کئے گئے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہ ادارے اپنا کام اس طرح نہیں کر رہے جس طرح کرنا چاہئے۔ لیکن ایک کام ہے جو یہ تمام ادارے احسن طریقے سے کر رہے ہیں اور وہ ہے کہ یہ معاشروں کا نظم قائم رکھے ہوئے ہیں۔
ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں۔ انسانوں کی دنیا کے باہر جو دنیا آباد ہے کیا وہ انصاف کے اصول پر قائم ہے یا نظم کے اصول پر؟ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ بڑا جانور چھوٹے جانور کو کھا جاتا ہے- پرندے حشرات الارض کو کھا جاتے ہیں۔ جانور نباتات کو کھا جاتے ہیں۔ یہ کھانا پینا صرف ایک سمت میں ہی نہیں چلتا بلکہ ایک حد پر جا کر یہ الٹ سمت میں چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلا جب بڑی مچھلی بیمار پڑ جائے تو چھوٹی مچھلیاں اسے کھا جاتی ہیں، جب بڑا جانور مر جائے تو چھوٹے جانور اسے کھا جاتے ہیں، جب پرندے کمزور پڑ جائیں تو حشرات الارض انہیں کھا جاتے ہیں۔ جب نباتات سے بن پڑے تو وہ جانوروں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ پتہ نہیں۔ لیکن کیا یہ نظم ہے؟ اگر یہ نظم نہ ہوتا تو کیا دنیا اربوں سال سے اس طرح قائم رہتی؟
ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہیں۔ غیر جاندار دنیا میں کونسا انصاف ہو رہا ہے؟ ماہرین فزکس بتاتے ہیں کہ بڑے ستارے چھوٹے ستاروں کو کھا جاتے ہیں۔ بڑے ستاروں کو بلیک ہول کھا جاتے ہیں اور چھوٹے بلیک ہول کو بڑا بلیک ہول کھا جاتا ہے اور پھر بگ بینگ ہو جاتا ہے جس سے نئے ستارے اور سیارے بن جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے دور ہٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ معلوم نہیں۔ لیکن کیا یہ نظم ہے؟ اگر یہ نظم نہ ہوتا تو کیا کائنات کھرب ہا کھرب سال سے اس طرح قائم رہتی؟
سو، ہمیں اپنی زندگی کے فیصلے کرتے وقت، دوسروں پر تنقید کرتے وقت، اداروں اور حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے وقت، اپنی سیاست، صحافت اور عدالت پر تبصرہ کرتے وقت شاید یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ دنیا وہ نہیں جو ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ دنیا وہ ہے جو یہ ہے۔ دنیا کو بدلنے کی کوشش بھی شاید کرنی چاہئے لیکن ساتھ ساتھ اس کو سمجھنے کی کوشش بھی ضروری ہے، تبھی زندگی میں وہ نظم قائم ہو گا جو کائنات کے قیام اور دوام کا ضامن ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین