• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری40،روز بعدحکمران قصر اقتدار سے بے دخل ہوجائینگے

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) آج سے ٹھیک چالیس روز بعد موجودہ حکمران قصر اقتدار سے بے دخل ہوجائیں گے اور وہ حساب کتاب شروع ہوجائے گا جس کی بنیاد پر آئندہ مدت کے لئے حکومتیں منتخب ہوں گی دستوری چلن برقرا ر رہے اور آئینی راہ میں رخنہ اندازی نہ کی جائے تو یہ فطری عمل دس ہفتوں سے بھی کم دنوں میں اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔ آئندہ عام انتخابات کےبروقت منعقد ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں رزوروشور سے بحث و تمحیص جاری ہےجو سراسر بے معنی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان واشگاف طور پر کہہ چکا ہے کہ وہ عام انتخابات طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق مقررہ مدت میں کرادے گا اس کےباوجود خود کو بے مقصد باتوں کے ذریعے نمایاں کرنے کے شوقین لوگ اس بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے سے باز نہیں آتے بدقسمتی سے یہ لوگ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ طاقت ور لابیوں کی جگالی کررہے ہیں اس نوع کے لوگ جن کے ہمرکاب ہوں وہ ان کے لئے رسوائی کا باعث بنتے ہیں اور دوسروں کو منہ بھر کر گالی دینے کیو جہ سے سرخ و سفید رنگ رکھنے کے باوجود بے پناہ بدصورت نظر آتے ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس قماش کے تمام لوگ ایک ہی خیمے میں یکجا ہوگئے ہیں۔ سال رواں کے عام انتخابات پر گزشتہ ماہ منعقد ہوئے سینیٹ کے انتخابات کی پرچھائیں پڑتی دکھائی دے رہی ہیں جن میں پوری انتخابی مشق ہی لعن طعن کی زد میں ہے پارلیمانی ایوان بالا کے لئے منتخب شدہ ارکان کی قابل لحاظ تعداد صاف ستھرے انداز میں چنی گئی اور اس چنائو میں بھی بیرونی عناصر کے گندے ہاتھوں نے اپنا کام دکھایا لیکن یہ ارکان ’’بخیروخوبی‘‘ ایوان میں پہنچ گئے۔ جن ارکان نے ناجائز ذرائع کا سہارا لیکررکنیت حاصل کی ہے خواہ وہ چیئرمین بنے ہوں یا ڈپٹی چیئرمین، پوری قوم انہیں برا بھلا کہنے میں تادیر مصروف رہے گی کیونکہ پاکستان کے عوام کئی دوسری برائیوں سے اغماض تو برت لیتے ہیں لیکن وہ انتخابی عمل میں دھوکہ دہی اور فراڈ کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے اس کا بنیادی سبب یہ ہےکہ پاکستان جب دو لخت ہوا تو اس کی وجوہات میں بنیادی کردار 1970ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے اور ایسے افراد کو اقتدار پر فائز کرنے کی خواہش تھی جو عوام یک نمائندگی کی سزاوار نہیں تھے۔ پاکستانی عوام کواچھی طرح یاد ہے کہ اس کے بعد عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو اس میں بھی نتائج مرتب کرتے ہوئے ہیرا پھیری کی گئی اور ایک غیر مقبول شخص نے عوام پر مسلط ہونے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں نظام بھی زمین بوس ہوگیا اور وہ شخص بھی تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات اگر آئندہ عام انتخابات کے لئے نمونے کا درجہ رکھتے ہیں یا ریہرسل ہیں تو پھر خاطر جمع رکھیں کہ حتمی نتیجہ ماضی سے قطعی طور پر مختلف نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے یہ ہو شربا انکشاف کیاہےکہ تحریک انصاف نے کہا تھا کہ سینیٹ کے انتخاب میں بلوچستان کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لئے ’’اوپر سے حکم‘‘ آیا تھا۔ منصورہ میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں جماعت کے امیر نے دریافت کیا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ خریدنے والے کیامجرم نہیں ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ سینیٹ جائز ہے یا ناجائز جبکہ یہاں بیٹھے بعض افراد کرپشن میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں ان کے خلاف بڑے آپریشن کی ضرورت ہے سراج الحق خود بھی سینیٹ کے رکن ہیں اور ان کی رکنیت 2021ء تک برقرار رہے گی۔ سینیٹر سراج الحق جب بتارہےتھے کہ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لئے اوپر سے حکم آیا ہے اور انتخاب مکمل ہوتے ہی سینیٹ میں عمران خان کی بجائے ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کے نعرے لگائے گئے سراج الحق کی رائے میں کسی کی جرات نہیں کہ وہ عمران خان کی قیمت پنتالیس کروڑ روپے تک لگائے۔ جماعت اسلامی 2013ء کے عام انتخابات کےبعد سے کے پی صوبے میں تحریک انصاف کی حلیف ہے خود سراج الحق سینیٹ کا رکن بننے سے قبل صوبائی حکومت میں سینئر وزیر تھے اور خزانے کا قلمدان ان کے تصرف میں تھا انہوں نے اہم شخصیات کی سیکورٹی واپس لینے کےفیصلے کو سراہا اور کہاکہ پشاور کے موجودہ حالات کے ذمہ دار وزیراعلیٰ پرویزخٹک ہیں۔ میٹرو کی دوڑنے سرسبز پشاور کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے چیف جسٹس دو سال پہلے وہاں کا دورہ کرتے تو انہیں پشاور منفرد نظر آتا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ ستر برس سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے نام سے حکومت کرنے والے ان حالات کے ذمہ دار ہیں سراج الحق کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما اور صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے کہا کہ سراج الحق کا بیان افسوسناک ہے جماعت اسلامی کے وزرا آستین کا سانپ ثابت ہوئے اگر کوئی خرابی تھی تو امیر جماعت اسلامی اقتدار کے مزے لوٹنے کی بجائے زبان کھولنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہوئے۔ اپنا ملبہ دوسروں پر ڈالنا جماعت اسلامی کی دیرینہ عادت ہے پانچ سال اقتدار کے مزے لئے ہیں تو ذمہ داری بھی قبول کریں۔ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان نے بڑا بول تو بول دیا ہے لیکن ان کی پسپائی بھی دیدنی ہوگی وہ بیس ارکان صوبائی اسمبلی کو نکالنے اور انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کا بیان دیکر داد تو سمیٹ ہی چکے ہیں لیکن ان میں کم و بیش گیارہ ارکان کو وہ دوبارہ اپنی پارٹی کے پروں تلے لے لیں گے ایسا کرکے وہ پہلی مرتبہ قلابازی لگانے کے مرتکب نہیں ہونگے۔ 
تازہ ترین