• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی کا انحصار سپریم کورٹ کے فیصلے پر

ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی کا انحصار سپریم کورٹ کے فیصلے پر

اسلام آباد (انصار عباسی) 5؍ اپریل کو متعارف کرائی جانے والی حکومتی ایمنسٹی اسکیم سے ابھی تک کسی کی بھی جانب سے فائدہ نہیں اُٹھایا گیا کیونکہ کئی لوگ اسکیم سے فائدہ تو اٹھانا چاہتے ہیں لیکن اس بے یقینی کا شکار ہیں کہ سپریم کورٹ اس اسکیم کے حوالے سے زیر التواء کیس میں کیا فیصلہ سنائے گی۔ حکومت کی ایمنسٹی اسکیم اسکروٹنی میں بھی آسکتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ پہلے ہی یہ اشارہ دی چکی ہے کہ وہ دولت کو سفید کرنے کے منصوبے کا عدالتی جائزہ لے گی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے حال ہی میں فیصل آباد میں 87؍ کنال حکومتی اراضی پر تجاوزات کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ ’ ہم ایمنسٹی اسکیم کو دیکھیں گے ‘ ۔ چیف جسٹس پاکستان نے آبزرویشن دی کہ ’ہم سنجیدگی سے غور کراور بیرون ملک غیر قانونی جائیداد اور اثاثوں کیخلاف سخت ایکشن لے رہے ہیں ‘ اور عدالتی دفتر کو حکم دیا کہ بیرون ممالک میں جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت مقرر کریں ۔ سرکاری ذرائع نے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ کاروباری طبقے اور ماہرین کی جانب سے اسکیم کو سراہنے کے باوجود اس سے ایک بھی شخص نے تاحال فائدہ نہیں اٹھایا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو دو باتیں پریشان کر رہی ہیں۔ اول، سپریم کورٹ کیا فیصلہ سنائے گی؟ دوم، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا یہ بیان کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس اسکیم کو ختم کر دیں گے اور استفادہ کرنے والوں کیخلاف قانونی کارروائی شروع کریں گے۔ تاہم سابق چیئرمین ایف بی آر اور سابق سیکرٹری ریونیو ڈاکٹر محمد ارشاد نے اس نمائندے کو بتایا کہ جو شخص ایک قانونی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور اگر بعد ازاں اس اسکیم کو ختم بھی کردیا جاتا ہے تو اُس شخص سے سوال نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا قانون کو ختم کرکے اس اسکیم کو روکا جاسکتا ہے لیکن اس کا اطلاق ماضی کے امور پر نہیں ہوگا۔ لہٰذا جو لوگ پہلے ہی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اُٹھا چکے ہوں ان سے سوال نہیں پوچھا جاسکے گا۔ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے امور آمدنی ہارون اختر نے رابطہ کرنے پر دی نیوز کو بتایا کہ عمران خان کے بیان سے اس اسکیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے بصورت دیگر اسکیم کی بڑے پیمانے پر تعریفیں کی جا رہی ہیں۔ ہارون اختر نے کہا کہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھنے والے افراد بے صبری کے ساتھ سپریم کورٹ کے پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک اکائونٹس میں دولت اور اثاثوں کا کھوج لگانے اور انہیں واپس لانے کے حوالے سے از خود نوٹس کیس پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی سپریم کورٹ اسکیم کی توثیق کرتی ہے یا کوئی غیر جانبدار حکم جاری کرتی ہے تو اس اسکیم پر فوری طور پر مثبت ردعمل سامنے آئے گا۔ وزیراعظم کے معاون نے مزید کہا کہ سرکاری ایمنسٹی اسکیم ہو بہو ان ہی سفارشات پر مبنی ہے جو سپریم کورٹ کی اپنی ہی تشکیل کردہ کمیٹی نے پیش کی تھیں۔ ہارون اختر کے مطابق، کاروباری لوگ اور اسکیم میں دلچسپی رکھنے والے دیگر افراد سرکاری حکام سے رابطہ کر رہے ہیں اور اسکیم کے متعلق سوالات پوچھ رہے ہیں۔ انہوں نے اسکیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے فارم ڈائون لوڈ کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ اسکیم کے اجراء سے قبل، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ حالیہ ملاقات کے دوران انہیں اعتماد میں لیا تھا۔ وزیراعظم نے ایمنسٹی اسکیم جاری اور ٹیکس اصلاحات کا اعلان کرنے سے قبل آرمی چیف سے بھی بات کی تھی۔ حکومت کو توقع ہے کہ سپریم کورٹ پاکستانیوں کی بیرون ملک موجود دولت اور اثاثوں کی واپسی کے از خود نوٹس کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے اس اسکیم کی توثیق کرے گی۔ حکومت کے اس ا عتماد کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ اس کی جاری کردہ ایمنسٹی اسکیم اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق تشکیل دی گئی ہے، یہ کمیٹی چیف جسٹس پاکستان نے پاکستا نیو ں کے بیرون ملک موجود اثاثوں اور دولت کا کھوج لگانے اور انہیں واپس لانے کیلئے قائم کی تھی۔ از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کمیٹی نے متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ موجودہ حالات پاکستانی شہر یو ں کیلئے رضاکارانہ طور پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے اور بیرون ملک موجود اثاثے واپس لانے کیلئے ’’انتہائی موزوں‘‘ ہیں۔ کمیٹی نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ پاکستانی شہریوں کے بیرون ممالک موجود اثاثوں کا کھوج لگانے کیلئے موجودہ اور متوقع اقدامات جیسا کہ او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ) کثیر الجہتی معاہدوں کو مشتہر کرنا چاہئے تاکہ شہریوں کو آمادہ کیا جا سکے کہ اگر اِس بار موقع دئیے جانے پر بھی غیر ملکی اثاثوں کو ظاہر نہ کیا گیا تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ ان کا کھوج لگایا جائے گا اور مذکورہ شخص پر بھاری جرمانے عائد اور قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔اس کمیٹی کے سربراہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طارق باجوہ تھے اور اس میں سیکرٹری فنانس عارف احمد خان، چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن، ڈپٹی چیئرمین نیب ایم امتیاز تاجور، چیئرمین ایس ای سی پی ظفر عبداللہ، اسپیشل سیکریٹری وزارت خارجہ شاہ ایم جمال اور ڈائریکٹر آئی بی عبدالنصر شجاع شامل تھے۔ رپورٹ مرتب کرنے کیلئے کمیٹی نے مختلف اسٹیک ہولڈرز سے رجوع کیا جن میں گل احمد ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ کے بشیر علی محمد، عارف حبیب گروپ کے عارف حبیب، حزیمہ اینڈ اکرام کے ڈاکٹر اکرام الحق، مانڈوی والا اینڈ ظفر کے محمود مانڈوی والااور علی ظفر، اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی کے سید شبر زیدی، ایف پی سی سی آئی کے سید مظہر علی ناصر، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سراج قاسم تیلی، کے سی سی آئی کے عبدالباسط، لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ملک طاہر جاوید، اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی کے عاصم ذوالفقار راشد ابراہیم، ٹیکس ریفارمز کمیشن کے مسعود الحسن نقوی، ٹیکس ریفارمز کمیشن کے اشفاق تولا شامل تھے۔

تازہ ترین