• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دن نجی اسپتال میں اپنے ایک عزیز کی عیادت کے لیے گیا، اسپتال کی ایمرجنسی کے باہر بہت سے لوگ جمع تھے اور چیخ چلا رہے تھے۔ خواتین زاروقطار رورہی تھیں۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔جاننے کے لیے کہ آخرماجرہ کیا ہے ہمت کرکے ایمرجنسی کے قریب گیا۔ تودیکھا ایک خوبصور ت سا نوجوان لگ بھگ 18 سے 19 سال کا ہوگا بستر پر لیٹا ہوا ہے اور تکلیف سے بری طرح کراہ رہا ہے۔ پورا جسم لہولہان ہے اس بچے کی تکلیف دیکھی نہ جارہی تھی میں نے قریب کھڑے ایک شخص سے دریافت کیا کہ کیا ہوا اس کے ساتھ، اس شخص نے جواب دیا کہ میرابھانجا ہے میری بہن کااکلوتا بیٹا اور بہت منتوں اور مرادوںکے بعد پیداہواہے۔ اس کے ہاتھ کی ہڈیاں اور پسلی کی ہڈیاں بری طرح ٹوٹ چکی ہیں ڈاکٹرز مایوس ہیں کہ بچنے کے آثار بہت کم ہیں۔ خون بھی بہت بہہ چکا ہے۔ اگر یہ واقعی مرگیا تو میری بہن یہ صدمہ کیسے برداشت کرے گی۔ وہ بالکل پاگل ہوجائے گی اب کوئی معجزہ ہوجائے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے ان صاحب سے پوچھا کہ یہ حادثہ ہوا کیسےہوا، کہنے لگے ابھی میرے بھانجے نے میٹرک پاس کرکے کالج میں داخلہ لیا تھا اور باپ کے پیچھے پڑا تھا کہ مجھے موٹرسائیکل دلادیں تاکہ کالج آنا جانا آسان ہوجائے باپ نے جب نہ مانی کہ یہ بہت خراب سواری ہے تم گھر سے جلدی نکل جایا کرو کہ کالج وقت پر پہنچو۔ پھر میرے بھانجے نے میری بہن سے فرمائش کی، بیٹے کی محبت میں میری بہن نے شوہر پر دباؤ ڈالا کہ بیٹے کی یہ خواہش پوری کردیں تاکہ اس کو آسانی ہوجائے۔ میرے بہنوئی نے بادل نخواستہ اس کو بائیک دلادی۔ آج دوسرا دن تھا وہ کالج سے واپس آرہا تھا اور شارٹ کٹ لینے کے لیےغلط سمت سمت سے موڑ کاٹ رہا تھاکہ صحیح سمت سے ایک کار بہت تیزی سے آرہی تھی اس کار سے اس کی ٹکر ہوئی یہ اچھل کر زمین پر آیا موٹر سائیکل توبالکل ہی بربادہوگئی اور بھانجا بھی برے حال میں ہے۔ گاڑی والا تو ٹکرمار کر رکا بھی نہیں اور چلاگیا۔ میں نے کہایہ قصور تو اس لڑکے کا ہی ہوا نہ باپ نے موٹرسائیکل دیتے ہوئے ٹریفک قوانین نہیں سمجھائے تھے تو ان صاحب نے جواب دیا کہ پورا شہر ہی رونگ سائیڈ ڈرائیوکرتا ہے شارٹ کٹ لینے کے لیے۔ کوئی ان کو روکتا ہے؟ اب میری بہن اپناسرپیٹ رہی ہے کہ یہ موٹرسائیکل کالج وقت پہ لے جانے کا ذریعہ ہے یادنیا سے جلدی رخصت کرنے کا یہ میں نے کیا کردیا۔۔۔۔۔۔یہ کہانی شاید اور شہروں میں بھی ہوتی ہو لیکن کراچی شہر میں یہ بہت عام ہے۔ آپ کسی بھی اسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچ جائیں روڈایکسیڈنٹ کے کیسز میں سے اسی فیصد موٹرسائیکل سواروں کے ہی ہوتے ہیں کہ جلدی کرنےاورشارٹ کٹ لیتے ہوئے ٹکر ہوگئی ۔ ان حقائق کے باوجود نہ مخالف سمت ڈرائیونگ کرنے والوں کو ایکسیڈنٹ کا خطرہ محسوس ہوتاہے نہ ہی ٹریفک پولیس ان کا چالان کرتی ہے اب صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے ریڈزون ایریاز میں بھی رونگ سائیڈ ٹریفک رواں رہتی ہے اور کوئی پوچھنے اور پکڑنے والا نہیں۔ ٹریفک پولیس ہر سگنل اورچوراہے پر ملے گی لیکن وہ صرف ان کو دیکھتے ہیں جہاں سے ان کی جیب گرم ہوجائے، پرانی گاڑیوں، میلی موٹرسائیکلوں، بغیر لائٹ کے ٹرکوں کو روک کر چالان کی دھمکی دے کر پھر ان سے مک مکا کرتے ہوئے پیسے وصول کرنا ہی ان کا کام رہ گیا ہے ان ٹریفک پولیس کی نظروں کے سامنے مخالف سمت سے ٹریفک آرہا ہوتا ہے لیکن ان کو نہیں روکتے جیسے مخالف سمت میں گاڑی چلانا قانون بن چکا ہو، شہر میں ایکسیڈنٹ بڑھنے کی کی سب سے بڑی وجہ wrong side driving اور آئے وقت ٹریفک جام بھی اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔کیونکہ جب ٹریفک غلط سمت سے آتا ہے توگاڑیاں آمنے سامنے ہوجاتی ہیں اور راستہ باقی نہیں رہتا پھر روانی کا کیا سوال؟ روڈ کو کلیئر کرانے میں بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ یہ عموماً یوٹرن کے مقام پر زیادہ ہوتا ہے مصطفی کمال کے دور میں اس مسئلے کے حل کے لیے ٹائر کلرز لگادیئے گئے تھے۔ جو غلط سمت سے آنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ مگر بدقسمتی کے سوائے ڈیفنس کے ہر جگہ سے ان کو چرالیا گیا۔ لہذا اب ڈیفنس میں جہاں جہاں یہ موجود ہیں ٹریفک رواں ہے۔ غلط سمت ڈرائیونگ نہیں ہے مگر باقی ماندہ شہر اگر اہم شاہراؤں پر خاص کر موڑ اور U موڑ پہ ٹائر کلرز لگائیں جائیں۔ اور ان کی باقاعدہ Monitoring اور Mainteance کی جائے تو ٹریفک پولیس سے بہتر انداز میں یہ ٹائر کلرز ٹریفک کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر کراچی میں بڑی بڑی بسیں (Mass Transit)چلادی جائیں جو ہر کچھ منٹ پر بس اسٹاپ پر آئیں تو موٹرسائیکل(انسان دشمن) جیسی سواری کی ضرورت اور اہمیت کم رہ جائے گی۔ سوچنا ہم سب کو ہے کہ شارٹ کٹ کس چیز کا لینا ہے۔ دنیا سے جانے کا یاجدیدطریقہ آمدورفت سے اپنے مقام پر؟ قانون کی پابندی درست ہے یا"جبر"ہے؟
تازہ ترین