• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب انتخا بات قریب آتے ہیں تو انتخابی مہم میں تیزی آجاتی ہے، لیکن یہ انتخابات جہاں دیگر وجوہات کی بنیادپرمنفرد ہیں وہاں ان انتخابات میں روایتی جوش وخروش کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ بلکہ عام لوگ اس سے لاتعلق ہوچلے ہیں،ایسے عالم میں البتہ سیاسی جماعتیں اور ان کے عہدیدار اپنی کامیابی کیلئے کوششوں میں مصروف ہیں۔ مہم میں ولولے کی کمی کی ایک وجہ یوں توالیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو بھی قرار دیا جارہا ہے لیکن اصل وجہ شعوری ہے کہ پسے ہوئے عوام اب ایسے انتخابات سے کسی اساسی تبدیلی کی توقع بھی نہیں رکھتے۔جب وہ عوام جن کی اکثریت کم تعلیم رکھتی ہے، کا اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ طرز عمل ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ کس قدر مایوس ہونگے جو حالات پر مکمل نظر اور اس کا ادراک رکھتے ہیں۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بڑے دلچسپ مگر سبق آموز تبصرے و پوسٹ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک صاحب نے ایک عبرت آموز تصویر پوسٹ کی ہے۔یہ تصویر شانگلہ بالولخیل پختونخوا کی ہے۔جس میں دو نوجوان کندھے پر لکڑی سے بنائے گئے ایک اسٹریچر پراپنے بیمار والد کو بٹھائےدشوار گزار راستے پر اسپتال لے جارہے ہیں۔یہ تصویر اس سچ کی نشاندہی کررہی ہے کہ پاکستان کے حکمران اب تک اس علاقے میں ایسی کچی سڑک بھی نہیں بنا سکے ہیں جس پر یہاں کے باشندے کسی سواری کو اپنا وسیلہ بنائیں۔یعنی اس جدید دور میں یہاں کے لوگ غاروں کے دور سے وابستہ ہیںاور پہاڑی سلسلے ہونے کی وجہ سے ایسے حالات میں بہت سخت آزمائش سے دوچار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی یہ زندگی انہی آزمائشو ں میں گزر جاتی ہے۔یہ امیر مقام صاحب کا وہ حلقہ ہے جہاں سے وہ ہر دور میں کامیاب ہوتے ہیں ،اور یہ علاقہ اُس خیبر پختونخوا کا ہے جس کی تقدیر جنا ب عمران خان اپنے 5سالہ دور میں بدل چکے ہیں! اور اسی کے صلے میں وہ اب پورے پاکستان کی حاکمیت چاہتے ہیں ! سوشل میڈیا پر اس تصویر کو ایک صاحب نےاس معنی خیز درس کے ساتھ جاری کیا ہے ’’ ووٹ ڈالتے وقت آپ کے انگوٹھے پر لگائی گئی انمٹ سیاہی تو دو دن بعد مٹ جائے گی۔۔۔لیکن۔۔۔۔انتخابی نشان پر لگائی گئی مہر کے اثرات 5سال تک ملک وملت پرپڑتے رہیں گے۔یوں آپ صرف شانگلہ بالولخیل ہی نہیں پورے صوبے کے مستقبل کا فیصلہ کرینگے ۔ دھیان سے ۔۔۔دیکھئے ۔۔۔کہیں آپ شانگلہ کے ساتھ پچھلے بیس سال سے ہونے والے ظلم کے حق میں تو ووٹ نہیں دے رہے۔۔۔کہیں آپ اسٹیٹس کو کی طاقتوں کو لانے کی غیر شعوری کوشش میں حصہ دار تو نہیں بن رہے۔۔کہیں آپ ان لوگوں کےسہولت کاروں کےحق میں تو ووٹ نہیں دے رہے جنہوں نے آپ کے ووٹ کوہمیشہ پلاسٹک پائف،بجلی کے کھمبے، پلاسٹک ٹنکی، سیمنٹ کی بوری، خالی اعلانات اور پیسوں کی نوک پر رکھا ۔۔۔کہیں آپ ان لوگوں کے ساتھیوں کو تو ووٹ نہیں دے رہے جنہوں نے آپ کے ووٹ کی عزت ہمیشہ پامال کی ۔کہیں آپ ان لوگوں کو تو ووٹ نہیں دےرہے جو آپ ہی کے انتخاب پر لعنت بھیجتے رہے ہیں!!۔یہ فیصل زیب صاحب کی کوشش تھی۔
پیپلز پارٹی کے ایک کارکن نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک افسردہ تصویر پوسٹ کی ہے ، جس میں عالم ارواح سے محترمہ شہید کا خیالی پیغام ہے ’’ جیالو ں میرے نام پر ووٹ مانگنے والو ں سے یہ ضرور پوچھ لیں، میرے قاتل کون ہیں؟ ان کے ساتھ تمہارا ہنی مون کب ختم ہوگا؟ بہرصورت سوشل میڈیا پر جہاں مدر پدر آزادی کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں وہاں عوامی آرا کےقابل فہم اور کھل کراظہارسے معاشرےکی تازہ تصویر بھی نمایاں ہوتی ہے ۔سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی تنظیم تو کچھ خاموش خاموش ہے لیکن اے این پی کے دوست خوب خوب اپنی جماعت کی تشہیر میں لگے ہوئے ہیں۔جبکہ ہر خاص و عام بالخصوص بلور خاندان کو خراج تحسین پیش کررہا ہے، بلاشبہ یہ خاندان اس کا مستحق ہے۔یہ حاجی غلام احمد بلور اور ان کے اہلِخانہ کا سینہ وجگر ہے جس نے اس قدر ناقابل برداشت سانحات پر بھی خود کو سیاسی انداز میں مقابلے کیلئے آمادہ کر رکھا ہے۔میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی حاجی غلام احمد بلور کے اس بیان کو نمایاں کیا گیا ہے کہ ہارون بلور کی شہادت میں اپنے ملوث ہیں۔ہمارے ہاں یہ روایت پختہ ہوچکی ہے کہ کسی واقعہ کے وقوع پذیر ہوتے ہی اُس کے ناطے یہود و ہنود سے جوڑ دیئے جاتے ہیں، ایسا ہے بھی، یہ کھلے دشمن ہیں، لیکن ان کی آڑ ہی میں بسا اوقات وہ عنا صر بھی اپنا کام دکھا جاتے ہیں جن کی طرف عمومی طور پر نظرنہیں جاتی۔اُمید کی جانی چاہئے کہ حکومت اس سلسلے میں اپنا فرض منصبی اخلاص کے ساتھ ادا کرتے ہوئے حقائق کو منظر عام پر لانے میں کوتاہی نہیں کریگی۔ہم بات کررہے تھے ان دنوں سوشل میڈیا کے بننے والے موضوعات کی،تو جہاں بلور خاند ان کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں اظہار یکجہتی کیا گیا ہے وہاںان کے اس حوصلے اور جرأت کو بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے کہ وہ کسی خوف و دہشت سے میدان نہیں چھوڑیں گے اور یہ کہ وہ انتخابی مہم چلائیں گے اور جیت کر دکھائیں گے۔ہماری دعا ہے کہ انتخابات ہوں اور ایسے لوگ منتخب ہوکر آئیں جو درحقیقت ملک و ملت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں۔تاہم یہاں اس خدشے سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ،کہ ایسے لوگ کہاں سے آئیں گے۔
اے این پی یا اس کی طرح کی دیگر جماعتیں جو بے لوث ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، ٓآخر اُن کا کسی تبدیلی میں حصہ ہی کتنا بنتا ہے؟ آٹے میں نمک کے برابر ،بلکہ اس سے بھی کم۔اور اس حصے کے حصول کیلئے بھی اُن کی راہیں مسدود کردی جاتی ہیں۔ جسے سیاسی اصطلاح میں پری پول دھاندلی کہا جاتا ہے۔مسلم لیگ ن کے خلاف ہونے والے واقعات کے تناظر میں صاف یہ کہا جارہا ہے کہ آنے والی حکومت تحریک انصاف کی ہوگی۔اس کے بائوجود وہ سیاسی جماعتیں جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان انتخابات کا حصہ ہیں وہ اس حوالے سےلائق ستائش ہیں کہ وہ ہار کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی محض جمہوری سلسلے کو رواں رکھنے کی خاطر اس ہار کو گلے لگانے کیلئے تیا ر ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
kk

تازہ ترین