• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس مہینے کے خاتمے پر میں 76برس کا ہو جاؤں گا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ 76برس کا عرصہ طویل ہوتا ہے یا نہیں لیکن ان برسوں میں دنیا نے جو رنگ ڈھنگ بدلے ہیں اور جیسا روپ نکھارا یا بگاڑا ہے اس کا حساب لگایا جائے تو یہ عرصہ غضب کا طویل محسوس ہوتا ہے۔ اس عرصے میں ہم نے پنسلون سے لے کر کمپیوٹر کی ایجاد تک، کیا نہیں دیکھا۔ طب کے علم نے کیسی کیسی قلانچیں بھریں، خلا کی تسخیر سے لے کر ہیروشیما کے جوہری دھماکے تک اونگھتا ہوا انسان بیسیوں بار چونکا۔ پوری انسانی تاریخ کا یہ عالم رہا ہے کہ جب بھی ذرا آنکھ لگی کوئی نہ کوئی دھماکا ہو گیا۔ کبھی انسان کے حق میں اور کبھی اس کے لئے جان لیوا۔
اس ساری تمہید کا مقصد اس نتیجے پر پہنچنا نہیں کہ دنیا بدل رہی ہے بلکہ اس حقیقت کو مان لینا ہے کہ ذرا زیادہ ہی تیزی سے بدل رہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کچھ ایسا ہو جائے کہ پرانے بزرگ لوٹ آئیں تو ہماری آج کی دنیا کو دیکھ کر انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ ہم کہتے ہیں کہ خود ہم جو اسی زمانے کے ہیں اور ابھی کہیں نہیں گئے ہیں، ہمارا ہی حیرت سے برا حال ہے۔ ملک ٹوٹ رہے ہیں اور ٹوٹ کر یکجا ہو رہے ہیں، بڑی بڑی مملکتوں کا شیرازہ بکھر چکا یا بکھرتا نظر آرہا ہے اور اقوام متحدہ میں ڈالی جانے والی نئی کرسیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کسی زمانے میں ایک دو بڑی جنگیں ہو جاتی تھیں اور کسی کے حق میں فیصلہ ہو جایا کرتا تھا۔ اب گلی گلی اور محلّے محلّے لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ کبھی سرحد پار سے گولے چلتے ہیں اور کبھی گھر کے آنگن میں خود گھر والے ایک دوسرے پر گولیاں چلا رہے ہوتے ہیں۔ سب کچھ ہورہا ہے، فیصلہ نہیں ہورہا۔ تبدیلیاں کب نہیں آئیں، انداز فکر نے کب پہلو نہیں بدلے لیکن آج کے دور میں رویّوں کا جو عالم ہے اسکے بارے میں طے کرنا مشکل ہے کہ اس پر مسرور ہوا جائے یا ناخوش۔ ایک بڑی مثال اخلاقی طرز عمل کی ہے۔ لفظ کرپشن جو کبھی محسوس ہوتا تھا کہ صرف مملکت پاکستان کی خاطر وضع ہوا ہے، اب دنیا کے کتنے ہی خطّوں میں سر ابھار رہا ہے۔ روس اور چین ، یہ دو ملک ایک نظرےئے کا غلاف اتار کر اس دنیا کے اکھاڑے میں اُترے ہیں جسے کچھ لوگ آزاد دنیا کا نام دیتے ہیں۔ روس میں بڑے بڑے لوگوں پر، خصوصاً ان پر جو راتوں رات کروڑ پتی ہوگئے، بد دیانتی کے الزام لگے۔ وہ جیلوں میں ڈالے گئے اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔ چین میں تو بددیانتی اور نفع خوری کے مجرم کو گولی ماردیتے ہیں۔ وہاں کئی سرکردہ لوگ پیسے کے پیچھے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چین میں دولت مندی کی جو ہوا چلی وہ اب جھکّڑ بن گئی ہے۔ برطانیہ میں کاریں بنانیوالی ایک نئی کمپنی کھلی ہے جو اتنی شاندار کاریں بناتی ہے کہ دنیا زمانے کا عیش ان پر ختم ہے۔ پوچھا گیا کہ یہ کاریں کہاں سمائیں گی، جواب ملا کہ چین میں بے شمار گاہک انکے منتظر ہیں۔ چین کے ایک اعلیٰ حاکم آٹھ مرتبہ عوام کے سامنے آئے، آٹھوں مرتبہ ان کی کلائی میں مختلف گھڑی بندھی ہوئی تھی اور وہ بھی بے حد قیمتی۔ میڈیا والوں نے ہر بار ان کی تصویریں اتار کر کلائی کی گھڑی کے گرد دائرہ بنا دیا تاکہ نگاہوں سے چوک نہ جائے۔ جب دولت کا یہ عالم ہو تو کرپشن نام کی آفت نازل ہونا شاید فطری بات ہے۔جبکہ برطانیہ میں پار لیمان اور سرکردہ رہنما کبھی سرکاری اخراجات کے نام پر چار پانچ سو پاؤنڈ اِدھر اُدھر کردیں تو قیامت مچ جاتی ہے۔ ایک صاحب کو تو اس لئے سزا ملی کہ انہوں نے اپنی بطخ کے لئے چھوٹا سا گھر بنایا تھا اور اس پر آنیوالے خرچ کو سرکاری اخراجات میں ڈال دیا تھا۔ اپنی ٹوری پارٹی کی سعیدہ وارثی کی تازہ مثال ہے کہ گولی ان کے کان کے قریب سے نکل گئی (یہ کراچی کی گولی کا ذکر نہیں)۔وہ جرأت مند خاتون تھیں، اڑگئیں اور ثابت کر کے چھوڑا کہ انہوں نے کرپشن نہیں کی۔بھارت ، جس کی ترقی پر خود بھارت والے حیران تھے، وہاں اب کرپشن کی ایسی پکار پڑی ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کی بنیادوں میں شگاف نمودار ہونے لگے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میڈیا چلّا رہا ہے لیکن کرپشن کے نعرے ایک کان سے داخل ہو کر دوسر ے کے راستے فضا میں تحلیل ہو رہے ہیں۔انّا ہزارے ہزار جتن کریں، لگتا ہے کچھ ہونیوالا نہیں۔اخلاقی رویّے کا دوسرا پہلو زیادہ چونکانے والا ہے۔ مغرب اپنی بے راہ روی کیلئے مشہور یا بدنام تھا، اس نے اپنا چولا بدلا ہے۔ برطانیہ میں کلیسا کے پادریوں پر تو پرانی تہمت ہے کہ بچّوں پر دست درازی کرتے ہیں۔ حال ہی میں آسٹریلیا سے خبر آئی ہے کہ وہاں چرچ کے عہدیدار نو عمر بچّو ں پر جو مجرمانہ حملے کرتے رہے ہیں، ان کی تفتیش شروع ہو گئی ہے اور وہ بچّے جو ذہن پر ایک گھاؤ لئے اب بڑے ہو گئے ہیں، گواہی دینے آگے آرہے ہیں۔
اس سے بڑا واقعہ انگلستان میں رونما ہوا ہے جہاں بی بی سی ٹیلی وژن کی نہایت مشہور اور مقبول شخصیت جمی سیویل کا مرنا شاید اس کے حق میں اچھا ہوا۔ لوگ اسے فرشتہ صفت سمجھتے تھے۔ بچّے تو اس کے دیوانے تھے اور اس کے پروگراموں میں بڑے شوق سے حصہ لیا کرتے تھے۔ کسے خبر تھی، اور اگر تھی تو وہ چپ رہا کہ یہی جمی سیویل بچّوں پر دست درازی کیا کرتا تھا اور بچے مارے خوف کے خاموش رہا کرتے تھے۔ اس کی جنسی بے راہ روی نے کتنے ہی معصوم ذہنوں پر بدنما داغ چھوڑ دیئے تھے۔ اس کے مرنے کے ایک سال بعد ایسے ایسے بھید کھلے ہیں کہ بی بی سی ان کی زد میں آکر اس وقت اپنے پچاس برسوں کے بدترین بحران میں الجھا ہوا ہے اور بڑے بڑے منصب دار اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اوپر سے غضب یہ کہ اس معاملے کی چھان بین کے دوران تکلیف دہ انکشاف ہو رہے ہیں۔ نو عمر اور کمسن بچّوں پر دست درازی کے اس قضےئے میں جمی سیویل تنہا نہیں بلکہ اور بھی کئی لوگ ملوث ہیں۔ ان کے نام سامنے آگئے ہیں اور اب یہ بحث ہے کہ کیوں نے وہ نام شائع کر دےئے جائیں۔ جمی سیویل کے بارے میں تو ایک مطالبہ یہ ہے کہ اس کی میّت جس خصوصی قبرستان میں دفن کی گئی تھی وہاں سے نکال کراسے عام قبرستان میں گاڑا جائے۔
اخلاقی رویّے میں آنے والے انقلاب کی دوسری تازہ مثال امریکہ کی ہے جہاں مخبری کے دنیا کے سب سے بڑے ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس کو اچانک استعفیٰ دینا پڑا۔ پیڑیاس نے جو عراق اور افغانستان میں فوجی مہمات کے سربراہ رہ چکے تھے، اپنی اہلیہ سے چھپ کر اپنی سوانح لکھنے والی خاتون سے مراسم بڑھالئے تھے۔ ان کے خلاف تفتیش کے دوران بھی جمی سیویل کی طرح اور کئی افراد کے نام سامنے آرہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی معاشرے پر بے راہ روی کے کتنے ہی الزام ہوں، حکمرانوں کو کھلی چھوٹ حاصل نہیں۔ ان کو رول ماڈل بن کر رہنا پڑتا ہے اور ای میل یا ٹیلی فون پر بھی خرمستیوں کی گنجائش نہیں۔ ہم نے برطانیہ میں کتنے ہی وزیروں اور بیوروکریسی کی اعلیٰ شخصیات کو خوار ہوتے دیکھا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں بھی یہ سب ہوتا رہا ہوگا، بس اتنا تھا کہ دنیا کو کسی کی خبر ہوئی ،کوئی بچ کرنکل گیا لیکن اب پردے فاش ہونے کے نئے نئے وسیلے نکل رہے ہیں۔ اب ایک بٹن دبتا ہے سو بھید کھل جاتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا سے پردہ پوشی کا چلن اٹھ جائے گا۔
تازہ ترین