• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران 10فیصد بھی ڈیلیور کرگئے تو، ن لیگ قصہ پارینہ سمجھیں،تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) آہستہ آہستہ وہ تمام خانے پر ہورہے ہیں جن کے بعد پاکستان کو آگے کی طرف لے جانے کا آغاز ہونا ہے ۔ چاروں وزرائے اعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں ، امیدواروں کی حد تک صدر مملکت کا معاملہ بھی طے پاچکا ہے ،کابینہ بھی اناؤنس ہوچکی ہے لیکن جو ہونے والا ہے اس کے اوپر ہمیں نظر رکھنی ہے یہ کہنا تھا میزبان طلعت حسین کا جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ “ میں پروگرام کا آغازکرتے ہوئے پروگرام میں نئی حکومت اس کے چیلنجز ، خارجہ پالیسی اور کیا ہونے جارہا ہے پر گفتگو کی گئی ۔خارجہ پالیسی کے چیلنجر پر جیو نیوز کے رانا جواد، صحافی ابصار عالم ، تجزیہ کار منیب فاروق ، اینکر پرسن جاوید چوہدری نے بھی گفتگو کی۔ رانا جواد ڈائریکٹر جیو نیوز کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو کافی مشکلات کا سامنا ہوگا، عمران خان کی الیکشن جیتنے کے بعد پہلی تقریر میں کشمیر کو ترجیح بنیادوں پر رکھا گیا تھا اور انڈیا کے ساتھ ہر قسم کی بات چیت کے لئے بھی خود کو تیار رکھنے کا عندیہ دیا گیا تھا جبکہ دوستی اور امن کی خواہش بھی ان کی ترجیحات میں شامل تھی ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حلف برداری والے دن میں اس تقریب میں ،میں موجود تھا ، پاکستان کے تینوں چیفس بھی تقریب میں موجود تھے اور تقریباً پاکستان کی ایک بڑی پاور وہاں موجود تھی اور آرمی چیف نے نوجوت سنگھ سدھو کو گلے لگا کر کرتار پور کھولنے کی بات بھی کی دوسری جانب واجپائی کے انتقال پروہاں جانے والے ہمارے نگراں وزیر اطلاعات اور فار ن آفس کے دیگر لوگوں کے ساتھ سشما سوراج کا رویہ بھی انتہائی نارمل اور پاکستانی وفد کو سراہا جانے والا تھا اور یہ چیزیں اس بات کا عندیہ ہوتی ہیں کہ جب بھی کوئی غیر متوقع تبدیلی آئے تو اس کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا جانا چاہئے۔فارن پالیسی کے حوالے سے کوئی ایسا ماڈل بنایا جائے جس کے اندر تمام ریاستی ادارے عمران خان کے ساتھ مل کر کہیں کہ اب ہم نے یہ ، یہ Initiative لینے ہیں ۔ انٹرنیشنل آئسولیشن کی طرف جائیں گے تو اس کے پیچھے بہت ساری باتیں ہیں ۔ ایف اے ٹی ایف آپ کے اوپر کھڑا ہے ، ایف اے ٹی ایف کی کیوسچن لائن دیکھ لیں ۔ہندوستان کے ساتھ ہمارا ایک انٹرنیشنل امیج لنک ہے ۔ہماری آرمڈ فورسز کی قیادت اور ہماری پولٹیکل لیڈر شپ کہتی ہے ری کنسلڈ کہاں پر ہوں گے اور ری کنسلڈ کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ لمبی نہیں ہے اور اس میں ہمیشہ جہاں پر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے ملک کے اندر جو ان انتخابات کے بعد بھی پیدا ہوئی ہے اور آپ کو اس کے اندر جو دیرینہمسائل ہیں اس جانب جانے کی کوشش کرنا ہوگی ۔ پاکستان اور پاکستان کی فوج اور ہماری قیادت کبھی کشمیر سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ،لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ کیا Initiative اس پر لیا جاسکتا ہے کہ جو رکاوٹیں ہیں ان کو کم کیا جائے ۔ جاوید چوہدری نے اپنی گفتگو میں کہا نواز شریف کے زوال کی وجہ فارن پالیسی بنی ، کیونکہ فروری 2014 میں ہونے والی انقرہ کانفرنس میں شرکت کے باوجود میاں نواز شریف پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اپنا کیس پیش کرنے کے بجائے خاموش رہے ورنہ ترکش صدر عبداللہ گل کی خواہش تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے ایشو کونمٹا دیا جائے اور پھر وہاں سے یہ ساری چیزیں شروع ہوئیں ۔ تین نئے فرنٹ میاں صاحب نے کھولے ایک افغانستان ، ایک انڈیا او ر تیسرا امریکا ۔انہوں نے کہا کہ اگرعمران خان 10فیصد بھی ڈیلیور کردیتے ہیں تو مسلم لیگ ن قصہ پارینہ بن جائے گی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان افغانستان کا ایشو حل کرپائیں گے ، امریکا کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر بنانا ہوگا ۔کرتار پور بارڈر کا مسئلہ 2019 میں حل ہوسکتا ہے یہ مسئلہ پرویز مشرف کے دور میں کھڑا ہوا تھا ۔ کرتار پور نارووال میں وہ جگہ ہیں جہاں پر گرونانک کے آخری دس سال گزرے تھے اور یہ جگہ بالکل بارڈر سے ایک کلو میٹر پاکستان میں ہے ۔ اس کی سمادھی کی زیارت کے لئے انڈیا کے بارڈر پر آجاتے ہیں جنرل مشرف کے دور میں فیصلہ ہوا تھا کہ ایک راستہ دیدیا جائے کہ وہ لوگ ایک کلو میٹر اندر آکر اپنی عبادت کرکے زیارت کرکے واپس چلے جائیں ۔ جنرل مشرف کے دور میں اس کو کھولنے کا سوچا گیا ، ضیا الحق کی خواہش بھی تھی کہ یہ بارڈر کھول دیا جائے اب جنرل باجوہ نے بھی اس کا عندیہ دیدیا ہے تاکہ سکھوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہوسکیں ۔ابصار عالم نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا 25 جولائی کے بعد تبدیلی پاکستان میں صرف اسلام آباد اور لاہور میں آئی ہے ، سندھ ، کے پی اور بلوچستان میں حکومتیں وہی ہیں۔ میرا اندازہ یہی ہے کہ عمران خان فارن پالیسی پر کوئی Initiative نہیں لیں گے۔ یو ایس اسٹیٹ سیکریٹری پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان کے ساتھ عمران خان کی ون آن ون میٹنگ ہوتی ہے اور کیا بات چیت ہوتی ہے۔ منیب فاروق نے کہا ہمیں عمران خان سے کوئی بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرلینا چاہئیں اس کے لئے زمینی حقائق کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ امریکا او رپاکستان کے خراب تعلقات اور ان میں بہتری کی راہ پر گفتگو کرتے ہوئے منیب فاروق نے کہا میرا نہیں خیال کہ فوری طو رپر عمران خان کوئی ایسا راستہ اپنائیں جس کی واپسی کی راہ نہیں ہو عمران کے پاس مارجن بڑا کم ہے ۔ امریکا ون ونڈو آپریشن پسند کرتا ہے اور دیکھنا یہ ہو گا کہ عمران خان ون ونڈو آپریشن کو سہولت دیں گے اور اس کا حصہ بن جائیں گے یا پھر ان کی خواہش ہوگی کہ وہ آزادانہ طور پر سب کچھ کریں اور آزادانہ سب کچھ کرنا مجھے ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ عمران خان کو سوچنا پڑے گا کہ اگر وہ کسی بھی قسم کی کمٹمنٹ کسی بھی حوالے سے بھی امریکا کو دینا چاہتے ہیں یا امریکا کے ساتھ اپنی کارپوریشن اسٹینڈ کرنا چاہتے ہیں۔رانا جواد کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دو بیانیہ ہیں ایک وہ جو اندرون ملک کہتے ہیں دوسرا وہ جو بیرون ملک کہتے ہیں اس کو اب ری کنسائلڈ کرنا پڑے گا ۔ امریکا آپ سے جو مانگ رہا ہے اور آپ جو اس سے بحث کررہے ہیں ۔امریکا کا خیال یہ ہے کہ افغانستان کے اندر عدم استحکام کی وجہ ایسے گروہ ہیں جو پاکستان کے اندر موجود ہیں جن کے خلاف کوئی واضح ایکشن نہیں لیا جارہا ہے ، جبکہ پاکستان جاکر کہتا ہے کہ نہیں ہم ان کے خلاف اسٹینڈ لے رہے ہیں ۔ یہاں ہمارا بیانیہ دوسرا ہوتا ہے ۔ یہ بیانیئے ری کنسائلڈ کرنے ہوں گے ۔ امریکا کو اس چیز کا احساس ہے اگر انہوں نے افغانستان کے اندر کسی بھی قسم کا استحکام لینا ہے ۔پاکستان کی جو اس وقت پالیسی ہے اس میں عمران خان کی پہل اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ وہ ہر چیز کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں ، آزادانہ طور پر ہمیں یو ایس کے سامنے کھڑے ہونے میں بہت ٹائم لگے گا ۔ جاوید چوہدری کا پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے کہنا تھا کہ امریکا کا وطیرہ رہا ہے جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو ہماری طرف آتے ہیں اور جب مسئلہ حل ہوجائے تو ہم سے منہ پھیر لیتے ہیں یہ پرانا تعلق ہے ہمارا امریکا کے ساتھ ہمیں ان سے محبت بھی بڑی ہے اور نفرت بھی بڑی ہے ۔ امریکا میں پچھلے جو چار صدور گزرے ہیں سب نے ایک جنگ چھیڑی اور اس کے بعد وہ ہیرو بن کر وہاں سے گیا اب سوال یہ ہے ٹرمپ جنگ کیوں نہیں چھیڑ رہے ۔ تاہم اندازہ یہی ہے کہ ایران کے ساتھ اس کی جنگ چھڑنے جارہی ہے ۔ ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے لانگ ٹرم تعلقات بنانے ہیں جو برابری کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان ہوں قومی اتفاق رائے کے بغیر یہ حکومت کوئی بھی پہل کرے گی اس کی قیمت بہت بھاری ہوگی اس کے لئے پارلیمنٹ ، سول ملٹری اتفاق رائے ضروری ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ تنہائی میں ایک چیز کرلیں اگر پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھادیا جاتا ہے کہ عافیہ صدیقی کے بدلے ہم شکیل آفریدی دیتے ہیں تو کیا ہوگا جس پر یقینی طور پر پارلیمنٹ کئی حصوں میں تقسیم ہوجائے گی ۔ رانا جواد کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے یہ ٹرانزیکشن نہیں ہے یہ ایک انٹرنیشنل معاہدہ ہے جس کے تحت آپ کرسکتے ہیں ۔منیب فاروق نے پاک امریکا تعلقات پر کہا سننے میں قومی اتفاق رائے اچھا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ میں سب ایک جگہ اکھٹے ہوجائین لیکن مجھے یہ ہوتا نظر نہیں آتا ، عافیہ صدیقی کو لانا یا شکیل آفریدی کو دینا یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب عمران خان کے پاس وہ اعتماد موجود ہو کہ سب کہیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔

تازہ ترین