• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میڈیا کے ایک حلقے میں یہ بات شدومد سے کی جارہی ہے کہ صدر کو جلسوں سے خطاب اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو میٹنگز سے علیحدہ رہنا چاہئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر کا عہدہ ایک غیر جانبدار عہدہ ہے اور اس کا سیاسی کردار قابل اعتراض ہے۔ مختلف ٹیلیوژن چینلز اس بحث پر جتنا وقت صرف کررہے ہیں مجھے لگا کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس بحث پر ہمارا یعنی پیپلز پارٹی کا موقف بھی عوام کے سامنے رکھا جائے۔ آئین کا آرٹیکل41صدر کے عہدے کے لئے اہلیت کا تعین کرتا ہے ۔ اس آرٹیکل کے مطابق کوئی بھی مسلمان پاکستانی شہری جس کی عمر45سال سے زیادہ ہو اور وہ پارلیمان کا ممبر بننے کی اہلیت رکھتا ہو صدر مملکت کے عہدے کا اہل ہے۔ پارلیمان کا ممبر بننے کی اہلیت آرٹیکل (62)میں دی گئیں ہیں۔ آرٹیکل41تو آرٹیکل62 سے ملا کر پڑھیں تو کسی طور پر آئین صدر کو جلسے کرنے، پارٹی اراکین سے ملنے یا اجلاس کرنے سے نہیں روکتا۔ زیادہ تر جواصطلاح استعمال کی جارہی ہے ۔ وہ ہے "Politcal Activity" کہ صدر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ اصطلاح کہیں آئین میں موجود ہے؟ اس اصطلاح کی تعریف موجود ہے؟جواب ہے کہ نہیں۔ آئین حتیٰ کہ کسی قانون میں بھی Political activityکی اصطلاح کی نہ تو تعریف موجود ہے اور نہ ہی اس پر پابندی کا تذکرہ ہی کہیں موجود ہے، چنانچہ چونکہ قانون صدر کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نہیں روکتا لہٰذا عدالت کے اعتبار سے یہ معاملہ ناقابل دست اندازی ہے۔ اب آتے ہیں اخلاقی اور سیاسی بحث کی طرف مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے زعماء کے نزدیک صدر کا عہدہ سیاسی نہیں ٹھیک اس طرح جیسے برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ سیاسی نہیں ہوتے اگر پاکستان میں بادشاہت ہوتی اور ایک ہی خاندان نسل درنسل ایوان صدارت میں برا جمان ہوتا تو یقینا جو کلاسک تعریف یہ زعماء کررہے ہیں اس پر پورا اترا جاسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر تمام ممالک جہاں بادشاہت کی بجائے خالص پارلیمانی نظام قائم ہے وہاں صدر کا عہدہ سیاسی ہے۔ پاکستان میں صدر سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ سیاسی جماعت اس کو اس عہدے کے لئے نامزد کرتی ہے۔ وہ باقاعدہ ووٹوں کے لئے سیاسی مہم چلاتا ہے اور سیاسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں صدر مملکت کے عہدے پر پہنچتا ہے چنانچہ پوری ہئیت کے اعتبار سے صدر کا عہدہ سیاسی ہے۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے گورنر جنرل بنے اور ان کے بعد تمام صدور اپنی پارٹی میں ا نتہائی فعال کردار کی وجہ سے عہدہ صدارت پر برا جمان ہوئے۔ آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی وجہ سے صدر ہیں لہٰذا برطانیہ راج کی کلاسک تعریف کو پاکستان پر نافذ کرنا ممکن نہیں ہوگا نہ صرف یہ کہ آصف زرداری سیاسی صدر ہیں بلکہ آنے والے کل میں اگر مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف کو موقع ملا تو ان کا نامزد صدر بھی سیاسی ہوگا۔ اب اس بحث کو دیکھتے ہیں کہ صدر کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے ۔ پہلے یہ طے ہونا ضروری ہے کہ سیاسی سرگرمیاں کیا ہوتی ہیں مثلاً صدر منڈی بہاؤالدین عید ملن پارٹی پر جاتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی سرگرمی ہے لیکن اگر صدر منڈی بہاؤالدین نہ جائیں اور منڈی بہاؤالدین کی قیادت کو ایوان صدر بلالیں تو کیا سیاسی سرگرمی نہیں ہوگی؟اسی طرح آصف علی زرداری کے تمام تر تعلقات دوستیاں ان لوگوں سے ہوں گی جو سیاست میں ہیں چنانچہ اگر آصف زرداری یوسف رضا گیلانی سے ملیں یا نثار کھوڑو، سراج درانی یا خورشید شاہ اور انور سیف اللہ کو ایوان صدر میں بلائیں تو کیا یہ سیاسی سرگرمی ہوگی یا سماجی سرگرمی؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صدر مملکت کی ہر سرگرمی کوئی نہ کوئی سیاسی رنگ رکھتی ہے۔ آصف زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں لیکن پیپلز پارٹی ایک رجسٹرڈ پارٹی ہی نہیں بلکہ رجسٹرڈ پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ہے جس کے سربراہ مخدوم امین فہیم اور سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف ہیں۔
پیپلز پارٹی کے مخالفین ایک سیدھی سادھی سیاسی بحث کو قانونی بحث بنانا چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس عمل سے پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت کم ہوگی لیکن ان کی یہ سوچ تاریخ سے لاعلمی پر مبنی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی قوت قانونی بحثوں پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ شخصی کرشمہ اور عوامی پذیرائی سیاسی کامیابی کا منبع ہیں۔ ماتما گاندھی آل انڈیا کانگریس کے ایک آنے کے رکن بھی نہیں تھے لیکن پوری کانگریس بھی کیا پورا ہندوستان ان کے اشاروں پر اٹھتا اور بیٹھتا تھا، مسلم لیگ 1906میں بنی تھی لیکن جب تک قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کو ایک قوت نہیں بنا دیا بطور پارٹی مسلم لیگ کی کارکردگی کیا تھی؟ آج الطاف حسین متحدہ قومی موومنٹ کے صدر ہیں نہ جنرل سیکرٹری لیکن متحدہ کا قومی فیصلہ الطاف حسین کی حتمی منظوری کے بغیر ممکن نہیں اسی طرح آصف زرداری کی اہمیت یہ نہیں کہ وہ صدر ہیں یا پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ ان کی اصل اہمیت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان آصف زرداری کو ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بینظیر بھٹو شہید کا سیاسی جانشین مانتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے نزدیک آصف زرداری بینظیر کی سیاست کے اصل امین ہیں اور وہ آصف زرداری کے ہر فیصلے پر لبیک کہتے ہیں۔ یہ سیاسی طاقت نہ تو عدالتی فیصلوں سے مشروط ہے اور نہ ہی قانونی موشگافیوں سے۔ صدر آصف زرداری کی سیاسی حیثیت کو اس وقت تک کوئی چیلنج نہیں ہوسکتا جب تک پیپلزپارٹی کی قیادت میں کروڑوں چاہنے والے ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے بھی ایسے کہ کندھے سے کندھا ملا ہوا ہے۔
(مضمون نگار وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی ہیں )
تازہ ترین