• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بار عشرہء محرّم کے دوران ہم نے ایک جلوس میں شرکت کی۔
لندن کے جاڑے اپنے شباب پر تھے اور جس بارش کی لئے یہ شہر بدنام ہے وہ مسلسل برسے جارہی تھی۔ ایسے میں کئی ہزار افراد باطل کے خلاف اور حق کے حق میں نعرے لگاتے جارہے تھے۔ وہی ظلم و ستم کا عنوان تھا، وہی جبر و استبداد سے نفرت کا اظہار تھا۔ مجمع کا سب سے مقبول نعرہ تھا ’ فلسطینیو، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘۔ ایک انگریز لڑکی چھوٹے سے لاؤڈاسپیکر پر چلّائے جارہی تھی ’ غزہ کا محاصرہ ختم کرو، اسرائیل دہشت گرد ہے‘۔
میں نے اپنے انٹرنیٹ پر دو ڈھائی سطروں کا اطلاع نامہ پڑھا تھا کہ ہفتے کی دوپہر برطانوی وزیر اعظم کے گھر کے سامنے سے یہ جلوس نکلے گا۔ میں نے سوچا کہ ڈیڑھ دو سو مظاہرین آئیں گے، ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے مجھے بھی چلنا چاہئے۔ درجہ حرارت گرنے پر تُلا ہوا تھا۔ بارش تھمنے سے انکاری تھی۔ میں موٹا سا کوٹ پہن کر،چھتری اٹھائے ، ڈاؤننگ اسٹریٹ جا پہنچا۔ وہاں ایک اورہی منظر دیکھا۔ وہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ہر جانب سے چھوٹے بڑے قافلے اور دستے چلے آرہے تھے۔ جلوس کی طوالت دراز ہوتی جارہی تھی۔ جس وقت میں جلوس میں شریک ہوا، میرا پسندیدہ نعرہ بلند ہورہا تھا۔ ” ہم سب فلسطینی ہیں“۔
لندن میں اپنے چالیس سال کے قیام کے دوران یہ میر ادوسرا نعرہ تھا۔ پہلا نعرہ نو دس برس ہوئے یہ مطالبہ کرتے ہوئے لگایا تھاکہ عراق پر حملہ نہ کرو۔ حاکم ِ وقت نے ایک کان سے سنا، دوسرے سے اڑا دیا۔ مادرِ جمہوریت آٹھ لاکھ کے مجمع کا منہ چڑاتی رہی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اس تازہ نعرے کی تاثیر جدا ہو گی کیونکہ ہزاروں مظاہرین میں سب سے معمّر شاید میں ہی تھا۔ اہلِ غزہ کے حق میں پرجوش جلوس نکالنے والے کچھ عرب اور فلسطینی یقینا تھے مگر سب سے آگے انگلستانی تھے اور کسی کی عمر بیس بائیس برس سے زیادہ نہ ہوگی۔ یہ سارا کا سارا جذبہ نوعمر نسل کا تھا۔ یہ بلند بانگ نعرہ ان نو جوانوں کا تھا جنہوں نے اس نئے دور میں ہوش سنبھالا اور آنکھیں کھولتے ہی دیکھا کہ دنیا میں جا بجا مظلوموں کو کچلا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کچلنے والوں کو دنیا کی با اثر حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔
چنانچہ بھیگے ہوئے یخ بستہ موسم کی پروا کئے بغیر ہزاروں افراد لندن کے قلب میں جمع ہوئے اور شہر کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے اسرائیلی سفارت خانے پہنچے۔ انہیں شاید یہ دکھانا مقصود نہ ہو کہ وہ اسرائیل کے خلاف ہیں ۔ اُن کا اصرار اس حقیقت پر تھا کہ آج کا نوجوان انصاف کو نیچے گرا کر اس کا سر تن سے جدا کرنے کامنظر دیکھنے کے لئے تیار نہیں۔
لڑکے لڑکیوں کے مجمع میں جو ں ہی کوئی بوڑھا انگریز نظر آیا تو خوشی ہوئی۔ ایسی خوشی عطا کرنے والے کتنے ہی منظر میرے قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے۔ مائیں اپنے شیر خوار بچو ں کو بچہ گاڑی میں لٹا کر لے آئی تھیں۔ کچھ خواتین نے اپنے گلے میں وہ چھوٹا سا جھولا ڈال رکھا تھا جس میں سے گردن نکالے دودھ پیتا بچہ نئی ابھرتی ہوئی دنیا کا نظارہ کرتا جارہا تھا۔ کچھ بچے اپنی ایک ٹانگ سے چلائی جانے والی اسکوٹی لے آئے تھے۔ میں اُس وقت بہت متاثر ہوا جب میں نے دیکھا کہ سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے ایک انگریز نے صدا لگائی ’ I love you‘۔ راستے میں پڑنے والی اونچی عمارتوں کے فلیٹوں کے جھروکوں میں کھڑے ہوئے بچّے، عورتیں اور مرد اپنی انگلیوں سے فتح کے نشان بنا رہے تھے اور جواب میں نیچے سڑک پر ہزاروں انگلیاں بلند ہوکر وہی نشان بنا رہی تھیں۔
بارش کے ساتھ ساتھ خزاں کے رہے سہے زرد پتّے چھتریوں کے اوپر گررہے تھے مگر کسی کو ان کی پروا نہ تھی اور مجمع نے جو پوسٹر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور جن پر فلسطین کی آزادی کے نعرے لکھے ہوئے تھے وہ بارش میں بھیگ کر شرابور ہوئے جارہے تھے لیکن کسی کو اس سے غرض نہیں تھی۔
ایسا منظّم جلوس کس نے دیکھا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس چل رہی تھی لیکن اس کا انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ کسی ہنگامے کو روکنے کے لئے نہیں بلکہ جلوس کو تحفظ دینے کے لئے چل رہی ہو۔ جلوس کے دو ڈھائی میل کے فاصلے پر راستے کی دونوں جانب اتنا ہی یعنی دو ڈھائی میل لمبا سفید فیتہ باندھ دیا گیا تھا ، اتنا سادہ سا سفید فیتہ کہ چشمے کے بغیر نظر نہ آئے۔ سارا جلوس آخر تک ان دو فیتوں کے درمیان چلا۔ کیا مجال کہ کسی نے کسی یہودی اسٹور یا اسرائیلی دفتر کے آگے کوئی نازیبا آواز نکالی ہو۔ صرف اپنی طرف کا ایک لڑکا ایسی قمیص پہن کر آیا تھا جس پر لکھے ہوئے نعرے میں اوباما کی عزت کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس ایک جلوس میں سچ پوچھئے تو کتنے ہی جلوس شامل تھے۔ مختلف تعلیمی اداروں کے دستے شریک تھے، بائیں بازو کی تنظیمیں ، شہر کے سوشلسٹ اور کمیونسٹ ، سب چلے آئے تھے۔ سرمایہ داری کے کٹّر مخالف تو ایسے موقعوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لیکن جس چھوٹے سے دستے نے سب سے گہرا نقش چھوڑا اس کے بینر پر لکھا تھا ’ ہم یہودی ہیں، ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں‘۔ (میں نے ریاست نیو یارک میں قدامت پرست یہودیوں کو مظاہرہ کرتے دیکھا ہے جن کا نعرہ تھا کہ فلسطینی حق پر ہیں)۔ غرض یہ کہ جلوس میں سب ہی آئے تھے، نہیں آئے تو دنیا کے شہرت یافتہ ٹیلیوژن چینلوں کے کیمر ہ مین اور اخباروں کے نامہ نگار۔ شام کے خبر ناموں میں جلوس کا ذکر تک نہ تھا۔
جلوس چلا جارہا تھا۔ بارش میں تربتر پرچم ، بینر اور پوسٹر اپنی چھڑی سے جدا ہوکر سڑک پر گرے جارہے تھے۔ اچانک مجھے نیچے گرا ہوا ایک پوسٹر نظر آیاجس پر غزہ کے ایک گلاب جیسے بچّے کی تصویر تھی جس کا آدھا دھڑ اسرائیلی گولے کی زد میں آکر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ وہ پوسٹرجلوس کے راستے میں سڑک کے بیچوں بیچ پڑا ہوا تھا۔ اُس وقت میں نے دیکھا اور میں وہیں کھڑا دیر تک دیکھتا رہا۔ لوگ اُس پوسٹر کو پھلانگ کراحتیاط سے یوں چل رہے تھے کہ کہیں ان کا پاؤں بچّے کے چہرے پر نہ پڑ جائے۔ سچ ہے۔ باشعور قومیں مظلوموں کی بے حرمتی نہیں کیا کرتیں۔
تازہ ترین