• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاشبہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اورتحقیقی ادارے جدید علوم کی تخلیق کی بدولت پوری دنیا پر بالا دستی حاصل کئے ہوئے ہیں۔ دراصل ایسے ممالک میں یونیورسٹی اور کالج میں ایک واضح فرق تحقیق اور تدریس کے حوالے سے پایا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ ،پی ایچ ڈی اسکالرز اور سائنس دان اپنی شبانہ روز تحقیقی سرگرمیوں کے نتیجے میں نئے علوم تشکیل دیتے ہیں۔ یوں تحقیقی عمل سے پیدا شدہ نیا علم جو کہ نظریات (Theories) اور ماڈلز وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے کالجوں میں طالب علموں کو پڑھایا جاتا ہے۔گویا یونیورسٹیاں نئے علم کی تخلیق بذریعہ تحقیق جبکہ کالج ایسے علم کی تدریس کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
تاہم ترقی پذیر ممالک میں وسائل کی کمی کے باعث یونیورسٹیوں کو ترجیحاً تدریس کے عمل کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یونیورسٹیاں بنیادی طور پر تدریسی عمل میں ہی صبح شام مصروف رہتی ہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ کی اکثریت کےتدریسی عمل میں مصروف رہنے کے باعث تحقیقی سرگرمیوں کے لئے درکار وقت اور توجہ نہیں نکال پاتی، نتیجتاً مقامی طور پر نئے علم کی تخلیق کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ بہ امرمجبوری ترقی یافتہ ممالک سے ہی درآمد شدہ علم طلبا کو پڑھانے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ تو نہیں اگر اساتذہ بذات خود ترقی یافتہ ممالک کی درسگاہوں میں جا کرتحقیقی ڈگریوں کی بدولت جدید علوم سیکھ کر آئیں اور پھر واپس وطن آکر طلبا کو اس سے مستفید کریں تاہم حکومتی سطح پر عدم ترجیح،توجہ کی کمی اور فنڈز کی محدود دستیابی کے باعث ہر سال بیرون ملک جانے والے یونیورسٹی اساتذہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
علم دوست حلقوں میں ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کا اپنے اساتذہ کو ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لئے ترقی یافتہ ممالک بھیجنے کے پروگرام کا بہت چرچا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب یونیورسٹی سے متعلق افراد سے رابطہ کرنے پر خوشگوار حیرت پر مبنی اعداد و شمار حاصل ہوئے اور دل کو ایک گُونہ طمانیت کا احساس ہوا کہ اگر ایک یونیورسٹی کی لیڈر شپ دور اندیش ہو تو وہ پھر در کار وسائل پیدا کر کے معجزے کرنے پر بھی تل سکتی ہے۔ بعد از تحقیق پتہ چلا کہ گزشتہ آٹھ سال کے دوران (جنوری 2008سے جنوری 2016ء تک) پنجاب یونیورسٹی کی اور سیز اسکالر شپ کمیٹی اٹھانوے اساتذہ کو خالصتاً اپنے وسائل سے ترقی یافتہ ممالک کی جامعات سے ڈاکٹریٹ کرنے کے لئے بھیج چکی ہے۔ ان ممالک میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، آسٹریا، نیوزی لینڈ، فرانس، جاپان، چین اور ملائیشیا جیسے ترقی یافتہ ممالک کی بہترین درسگاہیں اور تحقیقی مراکز شامل ہیں۔اس ضمن میں پنجاب یونیورسٹی کے ٹیچر وائس چانسلر سے گزشتہ دنوں ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ اگر ایک ٹیم کا کپتان پر عزم اور دور اندیش ہو تو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اگر ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو جدید علوم سے لَیس کرنا ہے تو ہمیں یونیورسٹی اساتذہ کوزیادہ سے زیادہ تحقیق اور تخلیقی سرگرمیوں سے آشنا کرنا ہوگا۔ چونکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ایسی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت آگے ہیں لہٰذا اپنے اساتذہ کو ان ممالک میں بھیجنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس سلسلے میں ہمیں احساس کمتری کا شکار بھی نہیں ہونا چا ہئے۔ پنجاب یونیورسٹی کی اوورسیز اسکالر شپ کمیٹی نےاساتذہ کو بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم کے لئے بھجوانے کے لئے انتہائی سادہ طریقہ کار اپنایا ہے۔ یونیورسٹی کے کسی بھی مستقل استاد کو دنیا کی کسی بھی ٹاپ رینکنگ یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہوتاہے بس اس کے بعد مذکورہ کمیٹی ضروری قانونی کار روائی کر کے متعلقہ اسکالر کو درکار فنڈز جو کہ پانچ ملین رویے تک ہو سکتے ہیں،مہیا کر دیتی ہے۔ مختصر یہ کہ بطور ایک پاکستانی شہری کے ہمارے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ معاشرے میں سب کچھ وقتی تقاضوں کو مد نظر رکھ کر نہیں ہو رہا بلکہ بعض ایسے افراد اب بھی ہم میں موجود ہیں جوخاموشی سے مستقبل کی تعلیمی سرمایہ کاری میں لگے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین