• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بایزید خان خروٹی
چائنا نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ چھوٹے قد ،چپٹی ناک اور چھوٹی آنکھوں والے لوگوں نے کم عرصے میں اپنے ملک کو ایک منفرد مقام دلوا دیا ہے، دنیا کا شاید ہی کوئی انسان ہو جس نے چائنیز پروڈکٹ استعمال نہ کی ہو۔ انگریز دودھ والی چائے کے ذریعے ایشیائی لوگوں کی رگوں میں سرایت کر گیا تو چائنیز سبز چائے اور سوپ کے ذریعے دنیا کو مطیع کر رہے ہیں۔یہ میرا چین کا دوسرا دورہ تھا۔اس کی خاص بات یہ تھی کہ مجھ ایسا صحافت کا ادنیٰ ترین طالب علم پاکستان کے چوٹی کے صحافت کے پروفیسروں کے ہمراہ تھا لہٰذا اس سفر میں جہاں مجھے چائنا کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملا وہیں مجھے ان اساتذہ سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا، جن میں’’ پارٹی از اوور‘‘ جیسے شہرہ آفاق کالم کے خالق سہیل وڑائچ، تند و تیز جملوں کے ماہر ہارون رشید، انگزیزی صحافت کے معتبر نام سلیم بخاری، ٹھنڈے میٹھے صحافی مجاہد بریلوی، صحافت کے آفاق کا درخشاں ستارہ منصور آفاق، نئی نسل کے پسندیدہ لکھاری خوشنودی علی خان، صحافت میں بے نظیر نذیر لغاری، صحافت کا موذن ارشاد عارف اور ڈاکٹر ظفر شامل تھے ۔حسب روایت جب آپ پاکستان سے باہر سے ہو کے آتے ہیں تو دوست احباب اور فیملی کے لوگ بڑے اشتیاق سے بیرونی دنیا کے قصے سنتے ہیں۔میں نے ابھی تک کسی Jealous یا Appreciate کرنے والے سے رودادِچائنا بیان نہیں کی ، میرا پہلا سامع میرا لڑکپن میں قدم رکھتا ہوا بیٹا ہے۔ میں چائنا کی تعمیر وترقی ، دنیا اور بالخصوص پاکستان پہ اس کے اثر و رسوخ کی تمام باتیں بیان کر چکا تو اس کے ایک سوال نے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ بابا آپ وہاں سے پاکستان کے لئے کیا لے کے آئے ؟
جواب انتہائی مشکل لگ رہا تھا لاجواب ہونا بھی ایک مشرقی باپ کی شان کے خلاف تھا، سو ایک سبق آموز واقعہ کو جواب بنا کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ بیٹا چائنا میں میری ملاقات ایک ایسے چائنیز سے ہوئی جو وہاں کی یونیورسٹی میں اردو کا پروفیسر تھا اور 1987 میں وہ پاکستان میں مقیم تھا تو اردو زبان کے شوق نے اسے اردو زبان کا پروفیسر بنا دیا۔ یہ نگ منگ شنگ ہے اس وقت وہ پیکنگ یونیورسٹی چین میں پاکستان سٹڈی سنٹر کا سربراہ ہے، اس سے پہلے شعبہ اردو کے سربراہ تھے، انہوں نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں بھی حصہ لیا، چینی قونصلیٹ کراچی میں بطور مترجم/قونصلر کام کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز بھی کیا، منیر نیازی کےگرویدہ ہیں بات بات پر منیر نیازی سے ملاقات میں ہونے والی باتوں کاحوالہ دیتے ہیں، ملاقات کے دوران وہ یہ راز افشا کرتے ہیں کہ جب وہ کراچی سے واپس بیجنگ جاتےاپنے گھر والوں کے لئےMade in Pakistanگھڑیاں اپنے بچوں کے لئے تحفے کے طور پر لے جاتے اور بچے بڑے فخر سے وہ گھڑیاں پہنتے جیسے آج ہماراکوئی عزیز ہمارے لئے امریکہ یا جاپان سے کوئی معیاری تحفہ لائے اور ہم عزیزوں اور دوستوں کو بڑے فخر سے اس کے بارے بتاتے پھریں، اسی طرح اس پروفیسر کے بچے وہ گھڑی پہن کے اتراتے تھے۔لیکن آج وہ پروفیسر ایک لاجواب کر دینے والا سوال کرتا ہے کہ آپ پاکستانیوں نے گزشتہ 30 سال میں ایک ترقی کی جانب تیزی سے جاتی ہوئی ریاست کو غربت و افلاس کی ماری ہوئی ریاست بنا کے رکھ دیا ہے؟60کی دہائی میں ڈاکٹر محبوب الحق کے بنائے ہوئے معاشی ماڈل میں ہم تھے کب کہ مرحلے تک پہنچتے۔ اس دور کے ہمارے بنائے ہوئے ماڈل یعنی Newly Industralised NIcs پر برازیل،ہانگ کانگ،سنگاپور،ملائیشیا نے عمل کرکے اپنے ممالک کو کہیں سے کہیں پہنچادیا ہم نت نئے تجربات کرتے رہے۔ Agrarian Society سےIndustrizationکی طرف مڑ گئے۔Import Substitutionنے ہمیں مائل کیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ’’ نہ خدا ہی ملا،نہ وصال صنم ،نہ ادھرکے رہے نہ ادھر کےرہے‘‘۔آج پھر نئی حکومت کو زراعت کا خیال اور زرعی میدان میں ترقی کا خیال آگیا ہے اور ہم 50سال پہلے کے اس دور کو یاد کررہے ہیں،جب ہمارے ملک کی بنی ہوئی اشیا بھی کسی کو فخریہ تحفے کے طور پر دی جاسکتی تھیں۔ کیا اب کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں ،کوئی چائنیز باشندہ پاکستان سے کوئی پروڈکٹ اپنے بچوں کے لئے تحفتاً لے جائے ؟میری بات سے میرا بیٹا کشمکش کا شکار لگ رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا وہ کچھ پو چھنا چاہ رہا ہے کہ بابا یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔لیکن مجھے پروفیسر کا یہ سوال ایک تحفہ لگا تھا گرچہ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا اور پرفیسر کا سوال ہی میں نے بیٹے کو پاکستان کے لئے تحفہ قرار دے دیا۔لیکن بابا جس سوال کو آپ پاکستان کے لئے تحفہ قرار دے رہے ہیں وہ کیونکر تحفہ ہے اور اسکا جواب کون دے گا ؟
بیٹے کی بے چینی اس کے غیر مطمئن ہونے کی دلیل تھی اس کے کچے ذہن کو میں نے شدید مشکل میں ڈال دیاتھا۔اب ایک پاکستانی کی طرح جان بھی چھڑانی تھی کیونکہ ایک سوال کو تحفہ بنا کر بیٹے کے سامنے افلاطون بن چکا تھا سواب کوئی سیاسی حل نکالنا تھا۔میں نے کہا بیٹا یہ سوال مجھ ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری چائنیز قوم کا طعنہ محسوس ہوا ہے۔اسکا جواب ا گرچہ میرے پاس نہیں لیکن یہ سوال میں ان کے سامنے رکھتا ہوں جو میری اور آپ کی قسمت بدلنے کے گزشتہ 3 دہائیوں سے دعویدار ہیں ۔میں پاکستان کھپے والوں سے پوچھتا ہوں،میں ووٹ کو عزت دینے والوں سے پوچھتا ہوں،میں سب سے پہلے پاکستان والوں سے پوچھتا ہوں،میں تبدیلی والوں سے پوچھتا ہوں،میں قوم پرستوں سے پوچھتا ہوں،میں مذہبی عمائدین سے پوچھتا ہوں۔ہمیں شاید کہیں نہ کہیں سے چین کے باسی پروفیسر کے سوال کا جواب مل جائے کہ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ چائنا کا کوئی باشندہ پاکستان سے واپسی پر اپنے اقرباء کے لئے کوئی پاکستانی پروڈکٹ کیوں نہیں لے جا سکتا؟جبکہ 30 سال پہلے وہ فخریہ پاکستانی گھڑیاں اپنوں کے لئے تحفتاً لے جاتے تھے۔
اس سوال کا جواب یقیناًایک بہت بڑی کھوج ہو گی اور بیٹا اگر میں، میرے دوست، آپ کے دوست، آپ کے ٹیچرز اور ہمارا سارا معاشرہ پروفیسر کے اس سوال کا بوجھ اٹھا لیں اور ہم جواب تلاش کر پائیں تو یہ بھی ایک تحفہ ہو گا جو شاید اگلی نسل کے کام آئے۔مجھے لگ رہا تھا کہ میرا جواںسال بیٹا غیر مطمئن ہے اس فلسفے سے لیکن وہ مزید سوال کرکے کسی اور الجھن میں پھنسنے او رمجھے پریشان کے موڈ میں نہیں تھا۔
تازہ ترین