• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب بھی کوئی ـ’’پولیس مقابلہ‘‘ ہوتا ہے، ماضی کی بہت سی باتیں یادآجاتی ہیں، کچھ درد سِوا ہو جاتے ہیں، کچھ تازہ زخم ابھر آتے ہیں۔ پہلے بھی کبھی یوں ہی ہوتا ہوگا، مگر نوّ ے کے عشرے کے آخرمیں لا قانونیت عروج پر تھی۔ ملک ، خصوصاً کراچی میں،وزیرِداخلہ، نصیراللہ بابر کا راج تھا۔ اب تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہو چکا، اُس وقت واسطہ ہم سے پڑتا تھا۔ تقریباً روزانہ ہی ان کی پریس کانفرنس ہوتی۔ وہ اُن دنوں کراچی آپریشن کے سربراہ تھے۔ اُن کے ساتھ ر حمان ملک ہوتے ، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز کر دئیے گئے تھے۔ آپریشن میںاُن کا اہم کردار تھا۔ اور یہ آپریشن1992 میں متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف شروع کئے جانے والے آپریشن کا تسلسل تھا۔ فوج کی جگہ رینجرز اس کی نگراںتھی۔ اور بھی کئی ایجنسیاں مددگار تھیں، پسِ پردہ اور پیشِ پردہ۔ نصیراللہ بابر بریفنگ دیتے تھے۔ اکثر معاملہ ’جنگ و جدل‘ تک جا پہنچتا۔ صحافیوں کی طرف سے تیزوتند سوالات ہوتے۔ پولیس مقابلوں کی حقیقت چیلنج کی جاتی۔ بحث اور تلخ جملوں کا تبادلہ عام طور پر ’پولیس مقابلوں‘ کے حوالے سے ہی ہوتا تھا۔ یہ اکثر جعلی ہوتے تھے، آج کی طرح۔ ملزموں کو کئی دن پہلے پکڑا جاتا تھا۔ تشدد بھی کیا جاتا ہو گا۔ پھر ایک دن پولیس مقابلے کا ڈھونگ رچایا جاتا۔ مختلف قسم کے دعوے کئے جاتے۔ ’پولیس پارٹی پر حملہ کیا گیا تھا، مقابلے میں ملزمان مارے گئے‘۔ ’تحقیقات کیلئے ملزم کو ایک جگہ لے جایا گیا، وہاں اس کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی، مقابلہ ہوا، ملزم مارا گیا‘۔ بابر صاحب کو حقیقت کا علم ہوتا تھا، صحافی اپنی تحقیق کی بنا پر بات کرتے تھے۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جو جائے واردات پر جا کر اصل صورتِ حال کا جائزہ لیتے، آس پاس کے لوگوں سے معلومات حاصل کرتے، اور صبح بابر صاحب کو چیلنج کرتے۔بابر صاحب جانتے سب تھے، ماننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ انہی کی ہدایت پر یہ نام نہاد پولیس مقابلے ہوتے تھے۔ انہیں کبھی اس مسّلم حقیقت کا ادراک نہیں ہوا کہ قانون کی پاسداری ہی قا نون کی بالادستی کی ضامن ہے۔ اور قانون پر عملدرآمد سے ہی دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ’دہشت گردوں کا یہی ایک علاج ہے‘ ۔ وقت نے ثابت کیا کہ ان کا یہ فلسفہ وقت کی میزان پر درست ثابت نہیں ہوا۔ یہ کہ جو مارا جا رہا ہے وہ دہشت گرد ہے یا نہیں، اور یہ کہ یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے، اس پر انہوں نے کبھی یقین نہیں رکھا۔ وہ خود ہی حاکم، خود ہی منصف تھے، اقربا خون کادعویٰ کس پر کرتے۔ ابھی ان کے طالبان بنانے میں کافی وقت تھا۔ انہیں یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے یہی طالبان آنے والے کل میں ، بعض لوگوں کے نزدیک، یا امریکہ کی ایما پر، آج کے ’دہشت گردوں‘ سے کہیں بڑے ’دہشت گرد‘ قرار پائیں گے ۔ وہ زندہ ہوتے تو طالبان کے خلاف کارروائیوں کو پتہ نہیںکس طرح دیکھتے۔ دل تو ان کا ضرور کڑھتا۔ اپنے لگائے ہوئے باغ کو اجڑتا دیکھ کر کس کا دل نہیں دکھے گا۔
آج جب نام نہاد پولیس مقابلے ہوتے ہیں تو وہ سب باتیں یاد آتی ہیں۔ زمینی حقائق میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہی طریقہ کار، وہی رویہ۔ لوگ اٹھائے جاتے ہیں، مہینوں انہیں اپنے قبضے میں رکھا جاتا ہے۔ قانون کے مطابق کسی عدالت میںپیش نہیں کیا جاتا، حالانکہ اب تو ہمارے منتخب نمائندوں نے رینجرز کو نوّے دن کے لئے ملزمان کا ریمانڈ لینے کا حق بھی دیدیا ہے۔ نوّے دن میں بھی اگر اتنے ثبوت اکھٹے نہیں کئے جا سکتے کہ مقدمہ عدالت میں پیش کر کے ملزمان کو سزا دلوائی جا سکے تو، ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے۔ جب کچھ ہاتھ نہیں آتا تو ایک دن ’پولیس مقابلہ‘ دکھا دیا جاتا ہے۔ چار، چھ، دس بارہ آدمی ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔ مقابلے میں دوسری طرف کا شاید ہی کبھی کوئی زخمی ہوتا ہو۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ یہاں بھی وہی ایک رویہ کہ اگر نیب نے کسی دوسری جماعت کا آدمی پکڑا ہے تو بہت اچھا کیا، ہمارا آدمی پکڑے گی تو بہت بری بات ہوگی، نیب ایک فضول ادارہ ہے، خرابیاں ہی خرابیاں اس میں ہیں۔ اُن دنوں جب ایم کیو ایم کے لوگ ’پولیس مقابلوں‘ میں مارے جارہے تھے، ہم اخبارنویس اس پر شور مچاتے تو وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو بہت برا لگتا تھا۔میں بی بی سی کے لئے کام کرتا تھا، غلام حسنین، قیصر محمود، رفعت سعید، اویس توحیداور قطرینہ حسین بھی ساتھ ہوتے۔ ہم لوگوں کی ایک ٹیم سی بن گئی تھی۔ کبھی کبھی ان میں سے کچھ کم ہو جاتے۔ہم سڑکوں کی خاک چھانتے ، حقائق جمع کرتے۔
بے نظیر بھٹو کو یہ پسند نہیں آتاتھا۔ ’پولیس مقابلوں‘ میں مارے جانے والوں پر انہیں کبھی دکھ نہیں ہوا، وہ دوسری پارٹی ، ایم کیو ایم ،کے تھے۔ اسی آپریشن کے دوران، بھٹو خاندان پر ایک اور المیہ ٹوٹا۔ بے نظیر بھٹوکے بھائی، مرتضیٰ بھٹو کو ان کے گھر کے سامنے ایک ’پولیس مقابلہ‘ میں ہلاک کردیا گیا۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، مگر مرتضیٰ، بہرحال بے نظیر کے بھائی تھے۔ ایک بہن کو جوان بھائی کی موت پر کتنا صدمہ ہوا، وہ منظر آج تک آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے۔ رات گئے بی بی، اسلا م آباد سے کراچی آئیں، غم فطری تھا، ان کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ نازوں میں پلی، وزیراعظم بے نظیر بھٹو، ننگے پیر، بڑی بے تابی اور بے قراری سے، ایک گئے گزرے اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں گئیں، جہاں ان کے بھائی کی لاش پڑی تھی۔ رورو کر ان کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔ سوئم والے دن بھی ان کا غم دیکھا نہیں جا رہا تھا، آنسو ان کے رک نہیں رہے تھے۔ ہم صرف سوچ سکتے تھے۔ جس آپریشن اور پولیس مقابلوں کی ہم مخالفت کرتے تھے، اور بی بی جس پر ہم سے ناراض ہوتی تھیں، وہ ان کے گھر تک پہنچ گیا۔ جب لاقانونیت کو فروغ دیا جائے، اس کی پشت پنا ہی ہی نہیں، ہمت افزائی بھی کی جائے، تو اس سے نکلنے والی آنچ آپ تک بھی پہنچ سکتی ہے، یہ خیال کم ہی لوگوں کو آتا ہے۔
آج یہ درد اس لئے سوا ہے کہ کل ان غیرقانونی کارروائیوں پر آواز اٹھانے والے اگر بہت زیادہ نہیں تو کافی تھے اور وہ توانا آوازیں تھیں۔ آج ان غیرقانونی کارروائیوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ دہشت گردتو ہے ہی دہشت گرد، وہ تو قانون کی خلاف ورزی پر تلا ہوا ہے۔ اس سے قانون کی پاسداری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ مگر اسے قانون کے دائرے میں لانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بصورتِ دیگراسے قانون کے مطابق سزا دینا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن خود ریاست قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔ اس کے ہاتھ قانون نے باندھے ہوئے ہیں، اور اسی میں ریاست کی عظمت ہے۔ دہشت گردی ایک قابلِ مذمت رویہ ہے، مگر ریاستی دہشت گردی اس سے زیادہ قابلِ مذمت ہے۔ باڑ کھیت کی حفاظت کے لئے ہے، وہی اسے کھانے لگے تو کھیت کی حفاظت کون کرے گا۔
سیاسی جماعتوں کا حال وہی ہے۔ جب تک ’وہ‘ دوسروں کے لئے آ رہے ہیں، وہ ٹھیک ہیں اور ہم خاموش ہیں۔ جب ہم تک آئیں گے تو غلط ہوں گے، اور ہم شور مچانا شروع کر دیں گے۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب وہ ’ہمارے لئے آئیں گے تو کوئی شور مچانے والا بچانہیں ہوگا‘۔ اعلیٰ عدالتوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ انہیں از خود کارروائی کرنی چاہئے۔
تحقیقات کروانی چاہئیں کہ حقائق کیا ہیں۔ اور چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل راحیل شریف سے بھی گزارش ہے۔ وہ ایک بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ملک کو دہشت گردوں سے نجات دلادی تو آئندہ آنے والی نسلیں انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گی اور تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ مگر ایک ذمہ داری ان کی یہ بھی ہے وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والی قوتیں ایسی کارروائیوں سے گریز کریں جن کا رد عمل مثبت نہ ہو۔ کوئی بے گناہ مارا جائے گا تو اس کے لواحقین میں غم و غصہ پیدا ہوگا، جسے کوئی بھی مفاد پرست اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر سکے گا۔ پرہیز، کہتے ہیں، علاج سے بہتر ہے۔
تازہ ترین