• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سے میری پہلی ملاقات 1980 کے موسم خزاں میں کیمپ جیل لاہور کی بیرک نمبر 2چکی نمبر17میں ہوئی جہاں وہ اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ مقید تھا۔ وہ تینوں پیپلزپارٹی کے مزدور وِنگ کی سیاست کرتے ہوئے پچھلے ایک سال سے وہاں مقیم تھے۔ ہم اس سے قبل ایک دوسرے سے واقف نہ تھے لیکن تب سیاست اس قدر رومان آفریدہ تھی کہ ایک دوسرے کے سامنے آتے ہی جمالیاتی دھماکہ سا ہوتا اور تمام خوبصورت رشتوں کے احساس اپنی جگہ بنا لیتے تھے۔ میرے اور ان کے درمیان قدرمشترک آمریت سے شدید بیزاری اور اسکے اظہار کا عمل تھا۔ میں سنٹرل جیل فیصل آباد میں فوجی عدالت سے مرحمت کردہ ایک سال قید بھگت کر وہاں پہنچا تھا۔ میں تو ”چھڑاچھانٹ“ تھا لہٰذا جیل یاتراکواگر گلگشت ِ چمن کے مترادف سمجھتا تھا توکوئی بڑی بات نہ تھی وہ تو شادی شدہ اورچاربچوں کا کفیل تھا لیکن اس کے باوجو د خوش باش، پرعزم، اپنے کئے دھرے پر نازاں اور سیاسی نظریات کی خاطر کسی بھی بلا کا مقابلہ کرنے پر ہمہ وقت تیار۔اسکی تعلیم واجبی لیکن علم تسلی بخش تھا۔ مارکس، لینن، ماؤزے تنگ کواس نے سن اورپڑھ رکھا تھا۔ سماجی ارتقا میں محنت کاعمل اور محنت کش کی فیصلہ کن حیثیت کا اسے مکمل ادراک تھا جس کے اظہار کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا کرتا تھا۔ چینی اور روسی انقلاب پرکلام کرتے ہوئے بسا اوقات وہ مجھے آئیڈلزم کا شکارمحسوس ہوتا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کاترانہ انٹرنیشنل ہمیں نظریاتی سمندر میں ڈوب کر سنایا کرتا۔ وہ ان دنوں پرولتاری انقلاب کو پاکستان کی دہلیز پرکھڑے محسوس کیا کرتا تھا۔ اس کے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی گھاٹ میں کھو دینے کے بعد پیپلزپارٹی کے پاس واحد راستہ اپنی نظریاتی کوتاہیوں کا ازالہ کرکے سوشلزم کیلئے جدوجہد رہ گیا تھا جس کے بارے وہ انتہائی پرامید تھا۔ اپنے طبقے کی فتح مندی اور سماجی ارتقا و نمو کی مخالف قوتوں کی شکست کو وہ نوشتہ ٴ دیوار قرار دیا کرتا تھا۔
زنداں خانے میں ہمارے شب و روز کتابیں پڑھتے، تبصرے کرتے، فیض# کی نظمیں ایک دوسرے کو سناتے گاتے گزرتے جارہے تھے۔ آئین معطل تھا لہٰذا بنیادی حقوق کا تو سوال ہی ناپید تھا، عدالتوں کے اختیارات کا دائرہ جائیدادوں کے تنازعا ت اور قتل و ڈاکہ زنی جیسے مقدمات کے فیصلوں تک سمٹ کر رہ چکا تھا۔ جو بھی آمریت کے خاتمے، جمہوریت اوربنیادی حقوق کی بحالی کے لئے زبان کھولتا اس پر قلعوں اور جیلوں کے دروازے کھل جاتے جن کے اندر ڈال کر حکمران اس طرح بھول جاتے جس طرح یوسف ِ کنعاں کو جیل میں پھینک کر ”بصح سنین“ (دس سالوں سے زائد) تک حاکم مصر بھول گیا تھا۔ ہاں اس دورمیں رہائی پانے کے لئے ایک باب ِ ذلت کھلا رکھاگیا تھا کہ معافی نامہ لکھ کرجیل سپرنٹنڈنٹ کو دیاجائے جو مارشل لا حکام کے سیاسی سیل کو بھیج دیاکرتا تھا۔ اسے بھی اس سہولت سے مستفید ہونے کی دعوت دی گئی تھی جواس نے کمال استہزاء سے ٹھکرا دی تھی۔ چند ماہ بعد ہی ذوالفقارعلی بھٹو کے بیٹوں میر مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو نے پاکستان کی جیلوں میں بند پیپلزپارٹی کے سیاسی قیدیوں کو رہا کروانے کی غرض سے پی آئی اے کا ایک مسافر بردار طیارہ اغوا کروا کے 54افراد کو رہا کروا لیا جن میں راقم الحروف اور وہ خیال پرست انقلابی بھی تھا، اسم بامسمٰی … بشیر دردی۔
سالہا سال کی قید و بند اور جلاوطنی کے بعد جب وہ 1988 میں پیپلزپارٹی کے دورِ اقتدار میں اپنے کنبے میں واپس آیا تو اسے غربت، افلاس، بیروزگاری اور تفکرات کے عفریتوں میں گھرا ہوا پایا۔ اسے زعم تھا کہ حکمران پارٹی اس کی قربانیوں کی بنا پر اسے پذیرائی بخشے گی لیکن چندماہ اسلام آباد کے ایوانوں کے باہر دھکے کھا کر اس کی عقل سلیم نے باور کرالیا کہ ”وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحرتو نہیں“ وہ پارٹی سے ناامید اور دل گرفتہ ہوکراپنے مسائل کے ساتھ نبردآزما رہا۔ معاشی مسائل کے لشکر اس کی قوت ِ مدافعت سے کہیں زیادہ طاقتور تھے جن سے مسلسل شکستوں کے نتیجہ میں وہ صحت اور نظریات دونوں سے محروم ہوتا چلا گیا۔
آج سے تین ماہ قبل سیفما میں میری کتاب ”کئی سولیاں سرراہ تھیں“ پر ایک نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ میں نے داخلی دروازے سے اندر قدم رکھا تو ایک آوازمیری سماعت سے ٹکرائی ”آصف!“ دیکھا توبشیر دردی تھا۔ ہم دونوں تیس برس کے وقفہ کے بعد مل رہے تھے۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مجھے اس میں سے بشیر دردی تلاش کرنے میں شواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے چہرے کی شگفتگی، اعتماد، بانکپن اور وقارمعاشی مسائل کے سونامی اپنے ساتھ بہالے جاچکے تھے۔ ضیاء الحق کی آمریت کے بعد اس کی اپنی پارٹی تیسری بار اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھیں لیکن وہ اپنے اور اپنے بیروزگار بیٹوں کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور دہائی دینے کے باوجود چھوٹی موٹی ملازمت تک حاصل نہ کر پایا تھا۔ ایک این جی او نے بشیر دردی کو نوہزارروپے ماہوار پرچپراسی رکھ لیا جس کا دردی کو گہرا دکھ اور رنج تھا۔ وفور ِ درد سے عاجز آکر چند روز قبل وہ بے درد دنیا، بانجھ معاشرے، سفاک سیاست، بے حس دوستوں اور ازل سے اسے گھیرے مسائل سے امان پا گیا ہے، مر گیا ہے۔ منوں مٹی تلے ابدی نیند سو گیا ہے۔ اسے معاشرے نے اچھال کر اس طرح باہر پھینک دیا تھا کہ تنہائی اور بیگانگی اس کا مقدر بن کر رہ گئی تھی۔ اس نے اپنے عالم شباب میں یعنی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرنے والے سالوں میں چالو سیاسی و سماجی اقدار کے الٹے رخ سفر اختیار کیا تھا جس کی منزل تاریخی طور پر وہی ہوا کرتی ہے جو اس کا مقدر بنی۔ بہاؤ کے الٹی سمٹ تیرنے کی اتنی قیمت توضرور ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کی موت کی خبر اس کے محلے کی اس تنگ و متعفن گلی کی نکر پرہی دم توڑ چکی ہوگی جہاں اس کی دو بوسیدہ کمروں پر مشتمل وہ کھولی واقع تھی جس میں وہ اپنے بیروزگار بیٹوں اور ان کی اولاد کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا۔ اسکے تین چار روز سیفما سے غیرحاضر رہنے کی بنا پر مینجمنٹ نے کمرشل حوالے سے پتہ کرایا تو معلوم ہوا کہ اسے تو دودن قبل سپردخاک کیا جاچکا ہے۔
تنہا بشیردردی ہی پارٹی کی بے التفاتی اور سفاکی کی بھینٹ نہیں چڑھا حافظ نصرت، مہر عطا، خالد شاد، رانالائق علی، اسلم لدھیانوی، ڈاکٹر عبدالرزاق، مہر عطا، خالد شاد، صادق قریشی، مسعود اقبال، عابد طاہر، عارف، امجد کس کس کا نام گنوایا جائے۔ یہ سب لوگ وہ ہیں جن کی کہانیاں بشیر دردی کی کہانی سے بھی زیادہ دلخراش ہیں۔ حافظ نصرت خالی جیب مہلک بیماری اور ناک ناک تک پہنچی غربت سے لڑتے لڑتے بغیر دوااورعلاج کے ایڑیاں رگڑتارہا۔ ایم کیو ایم کے ایک رکن کیساتھ اس کی علیک سلیک تھی جس نے اپنی تنظیم کو حافظ نصرت کے علاج کیلئے درخواست کی اوراس کاعلاج توممکن ہوگیا لیکن اسے موت سے نہ بچایا جاسکا کیونکہ اندر سے وہ بہت پہلے کا مرچکا تھا۔ اسی طرح باقی کے تمام ساتھی جن کا اوپر ذکر آیا ہے آج منوں مٹی تلے چین کی نیند سو رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی سر تا پا ان کی روحوں کی مقروض ہے۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے ملک سے آمریت کے اندھیرے دورکرنے اور قوم کوجمہوری آزادیوں سے ہمکنار کرنے کی خاطر ملک پر قابض غیرجمہوری حکمرانوں کے خلاف ہتھیار تک اٹھا لئے تھے جس کی پاداش میں انہیں گرفتاری کے بعد فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان سب نے انتہائی جرأت اور فخرکے ساتھ اپنے اوپر لگائے گئے جرم بغاوت کا اقرار کرتے ہوئے فوجی عدالت کا بائیکاٹ کیا اور سزائے موت سنائے گئے۔ اس حکم سزائے موت پروقت کے حکمران خود عملدرآمد نہ کر پائے توسزائے موت عمرقید میں بدل دی۔ یہ سب لوگ آٹھ آٹھ نو نوبرس جیل در جیل گھومائے جاتے رہے۔ 1988 میں پیپلزپارٹی کے برسراقتدار آنے پر یہ رہا ہوئے تو دنیا بدلی ہوئی تھی اور ان کی معیشتیں برباد ہوکررہ چکی تھیں۔ پارٹی کی سردمہری نے ان سب کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ ان کاحال ملاحظہ کرکے پیپلزپارٹی کے مخلص کارکنوں نے عبرت کا سبق لیا۔ اس سے پارٹی نظریاتی اور سچے کارکنوں سے محروم اور ابن الوقتوں کے نرغے میں آتی چلی گئی۔ اس پرطرہ یہ کہ موجودہ پارٹی قیادت کے نزدیک نظریات بے معنی اور پاور پالیٹکس منتہائے مقصد قرارپائی۔ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر ق لیگ سے اتحاد اور پنجاب منظوروٹو صاحب کے حوالے کرنے کے عمل نے پارٹی کے مخلص کیڈر کو 9.9 اسکیل کے زلزلے کی زد پررکھ دیا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ جوکھرے اور آزمودہ لاکھوں کارکن اور ان کی اولادیں ہیں وہ پارٹی کا دم توبھرتے ہیں لیکن عملی طورپر لاتعلقی اختیار کرچکے ہیں جس کا نتیجہ حالیہ ضمنی انتخابات میں کھل کر پارٹی کے سامنے آگیا ہے۔ ملکی سیاست کے حوالے سے یہ اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی جیسے مخلص ، کمٹڈ، جنونی اور ماہر و مشاق کارکن کسی اور سیاسی جماعت کو میسر نہیں ہیں۔ ان کو نظرانداز کرنا، ان پروارداتیوں کو فوقیت دینا، پارٹی میں ان کی عزت و توقیر کا سما پیدا نہ کرنا، ان کو متحرک و فعال کرنے کے جتن نہ کرنا پارٹی کو انا للہ… کی منزل تک پہنچانے کی شعوری یاغیرشعوری کوشش سے ہی موسوم کیاجاسکتاہے۔ اب بھی وقت ہے کہ صدرآصف علی زرداری جو خود بھی گیارہ سال تک قیدو بند کی اذیتیں بھگت چکے ہیں باقاعدہ طور پر پرانے اور مخلص پارٹی رہنماؤں پر مشتمل بااختیار کمیٹی تشکیل دے کر (جس میں جہانگیر بدر شامل نہ ہوں) بشیردردی سمیت ابتلا ؤں سے گزر کر جو لوگ اس جہاں سے گزر چکے ہیں ان کے پسماندگان کی تالیف قلبی کا سامان کریں اورجو زندہ ہوتے ہوئے بھی معیشت کے گردابوں میں الجھے ہوئے ہیں انہیں اس سے نجات دلانے کی چارا جوئی کریں۔ اس طرح سب کچھ ٹھیک تو نہیں ہوسکتا البتہ پیپلزپارٹی کا ان بددعاؤں سے پیچھا چھوٹ جائے گا جو اس کی حالیہ عدم مقبولیت کی ایک بڑی وجہ چلی آرہی ہیں بصورت ِ دیگر رہے نام اللہ کا!!!
تازہ ترین