• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادھر دو چار روز سے کچھ عجب سے خیالات چلے آرہے ہیں اور وہ یہ کہ امریکہ اور پاکستان میں کچھ باتیں کتنی مشترک ہیں۔ اسی طرح برطانیہ اور پاکستان میں بعض حالات ایک جیسے ہیں۔ امریکی ثقافت کو گن کلچر کہا جاتا ہے یعنی اسلحہ کا عام چلن جہاں ہر شخص ہتھیار لئے پھرتا ہے۔ سوچئے تو خیال ہوتا ہے کہ یہی حال پاکستان کا ہے، گھر گھر اسلحہ موجود ہے۔ ضرورت ہو یا نہ ہو، اسلحہ رکھا ہے۔ ایک زمانے میں بادشاہ کسی سے خوش ہوتے تو اسے ہاتھی دے دیا کرتے تھے۔ اب حاکم کی کسی پر نظر عنایت ہو تو وہ اسلحہ کا لائسنس دے دیا کرتا ہے۔ ہاتھی کا عطا ہونا تو ایک طرح کی سزا تھی، اس کا پیٹ بھرتے بھرتے نیا مالک خود بھوکا مرجایا کرتا تھا۔ اسلحہ کا عطا ہونا ایک دوسری طرح کی سزا ہے جو سامنے یا زد میں آجانے والے کو ملتی ہے۔ ہتھیار کا مالک گھر کی بہو بیٹیوں سے لے کر ننھے بچوں کے منہ میں پولیو کی ویکسین کے قطرے ٹپکانے والی دوسروں کی بہو بیٹیوں پر ہاتھ صاف کردیتا ہے اور منہ پونچھ کر یوں کھڑا ہوجاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اس موقع پر مجھے ایک اور خیال آتا ہے۔ یہ لوگ جو بے قصور اور معصوم صفت خواتین کے سر میں گولیاں اتار کر واپس اپنے حجروں میں چلے جاتے ہوں گے اور پھر اطمینان سے بیٹھ کر ٹیلی ویژن پر اپنی کامیابی کی خبریں سنتے ہوں گے، تو کتنے خوش ہوتے ہوں گے ۔ یہ واحد موقع ہے جب کسی کو خوش دیکھ کر رنج ہوتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ کاش ان حجرہ نشینوں کو خوشی نصیب نہ ہو۔
ایک اور عجب خیال آیا۔ پشاور میں چودہ برس کی ایک پھول جیسی لڑکی بچوں کو پولیو سے روک تھام کے قطرے پلانے جارہی تھی۔ کچھ لوگ آئے اور اس کے سر میں گولی پیوست کر کے چلے گئے۔ بھولی سی لڑکی اسپتال پہنچ کر دم توڑ گئی۔ جب اس کی میت آپریشن تھیٹر سے باہرلائی گئی تو اس کے اوپر چادر پڑی ہوئی تھی۔ اس کا سارا بدن چادرمیں چھپا ہوا تھا صرف پاؤں باہر نکلے ہوئے تھے۔ کسی حساس دل فوٹوگرافر نے اُن کی تصویر اتار کر شائع کردی۔ ایسے چھوٹے چھوٹے سے صاف ستھرے پاؤں جن پر نہایت سلیقے سے تازہ تازہ نیل پالش لگی ہوئی تھی، میرا جی چاہا کہ وہ پاؤں چوم لوں۔
ایک اور خیال آیا۔ یہ دہشت گرد، مخبری کے اداروں کی آنکھوں سے چھپے ہوئے یہ نامعلوم افراد گولی چلانے کے کتنے ماہر ہیں۔ بڑے کمال سے لڑکیوں کے سر کو نشانہ بناتے ہیں اور آگ کی طرح تپتی گولی ان کے بھیجے میں اتار دیتے ہیں۔ مہارت کا ایسا ہی مظاہرہ ایک نام نہاد نامعلوم فرد نے سوات کی پندرہ سالہ ملالہ یوسف زئی پر کیا تھا۔ گولی کاسہٴ سر کو ذرا سا توڑتی ہوئی کاندھے میں اتر گئی۔ اب یہی نامعلوم افراد یہ ثابت کرنے پر سارا زور صرف کر رہے ہیں کہ وہ کسی بیرونی طاقت کی سازش تھی اور ملالہ اس ڈرامے کی اداکارہ سے زیادہ کچھ نہیں۔
ایک تو جان لیتے ہیں، اوپر سے حجرے میں جاکر جشن مناتے ہیں ۔ ہم ایسے موقعوں پر جو کہتے ہیں کہ ان سے خدا ہی سمجھے، وہ اس لئے کہ یہ کہہ دینے کی ہماری پرانی عادت ہے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ان سفاک لوگوں سے جس کو سمجھنا چاہئے، اس سے خدا سمجھے۔
خیال کا میرا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ اب مجھے خیال آیا پاکستان اور برطانیہ میں ایک جیسی صورتحال کا۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں بھانت بھانت کے رنگ و نسل کے لوگ آزادانہ گھومتے پھر رہے ہیں اور اپنے بدن پر شیطان کی صورتیں گُدوا کر کہاں کہاں سے چل کر پاکستان آگئے ہیں اور یہی نہیں، ملک پر قبضہ کرنے کے ارادے باندھ رہے ہیں۔ برطانیہ کا حال بس ذرا سا مختلف ہے۔ دنیا زمانے کی خلقت سر اٹھائے انگلستان آگئی ہے اور مردم شماری سے انکشاف ہوا ہے کہ انگلستان میں خود انگریز اقلیت بنتے جارہے ہیں۔ شہر لندن کے بارے میں طے ہے کہ آدھی سے زیادہ آبادی غیر ملکیوں کی ہے۔ صومالیہ، بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش والوں کی یلغار کیا کم تھی کہ اب مشرقی یورپ میں جسے کچھ کرنے کو نہیں وہ ریل گاڑی میں بیٹھ کر برطانیہ آگیا ہے اور بعض علاقوں کا تو یہ حال ہے کہ نہ پوچھئے۔
مجھے ایک مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ مشاعرہ مشرقی لندن کے علاقے ایسٹ ہیم میں تھا۔ لندن میں اپنے چالیس سال کے قیام کے دوران مجھے وہاں جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اُس روز جو گیا تو سر چکرا کر رہ گیا۔ ایسٹ ہیم کے بازار میں جو چلنا شروع کیا تو کبھی محسوس ہوا کہ کیرالہ میں آگیا ہوں اور کبھی فیصل آباد میں، کبھی سری لنکا سے گزر رہا ہوں کبھی کراچی سے ، اچانک یوں لگا کہ راہ میں مدراس آگیا لیکن ذرا آگے بڑھا تو لدھیانہ اور انبالہ کا گمان گزرا۔ پھریہ کہ بازار میں سب بول رہے تھے۔ کیا دکاندار، کیا خریدار، ہر شخص بول رہا تھا اور بولیاں بھی کیسی، ملیالم، تامل، تیلگو، کنڑی، سنہالہ اور اس انبار تلے دبی دبی سی پنجابی۔
اس سارے راستے طرح طرح کی مخلوق ملی لیکن رنگت کے معاملے میں ایسی سلونی کہ میں اپنے آپ کو سفید فام لگا۔ خدا خدا کر کے وہ لاہوری ریستوراں آیا جہاں مشاعرہ تھا اور جہاں اس وقت تازہ نہاری، پائے ، حلیم اور بریانی مہک رہی تھی۔ میں نے باورچی خانے میں جو جھانکا تو دیکھا کہ سلیمہ، رضیہ، رانی اور چکوری کھانا پکا رہی تھیں۔ اچانک ایک بجلی سی کوندی ۔ ریستوراں میں کام کرنے والی ملازمہ نظر آئی جو گوری تھی۔ میں حیران ہو کر اس کے قریب گیا اور انگریزی میں پوچھا کہ کیا تم برطانوی ہو؟ وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بولی ”معاف کیجئے، مجھے انگلش نہیں آتی“۔
یہ تو ہے کہ برطانیہ کی آبادی کے گوشواروں پر چھا جانے والے یہ لوگ یہاں اپنی حکومت قائم کرنے کے منصوبے نہیں بنارہے ہیں لیکن اگر جمہوریت بہترین انتقام ہے تو دیکھئے گا، ڈھائی تین سو برسوں کی چیرہ دستیوں کا انتقام اسی نہاری، پائے اور حلیم کی میزوں پر لیا جائے گا۔
بس یہ ضرور ہے کہ اس ملک میں اڑتی ہوئی مرغابی بھی آگئی تو اس کے پاؤں میں پڑے ہوئے چھلّے پر اس کا اندراج لازماً ہے۔ کتنے چیچن ہیں، کتنے ازبک اور کتنے تاجک ، ایک ایک بچے کا نام کہیں نہ کہیں درج ہے۔ نامعلوم افراد کون ہوتے ہیں ، یہاں کسی کو معلوم نہیں۔ اس میں بے قاعدگی شاید ہو، بدنظمی کا کہیں کوئی امکان نہیں۔
اکبر الہ آبادی خدا کی جس شان کو دیکھنے انگلستان چلے تھے، اس میں ممکن ہے کمی آگئی ہو مگر اس کے بل نہیں گئے لیکن یہ شان تاابد رہنے والی نہیں۔ جو کوئی سرزمین انگلستان کی اصل صورت شکل کے رہے سہے آثار دیکھنے کا خواہاں ہے، ابھی چلا آئے بعد میں نہ کہے کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔
تازہ ترین