• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک وقت وہ تھا جب بیرون ملک متعین سفیروں اور قونصل جنرلز کی ذمہ داری صرف سفارتی تعلقات کے فروغ تک محدود ہوتی تھی لیکن موجودہ دور میں دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی ملک سے اچھے معاشی تعلقات کی وجہ سے اس ملک سے سفارتی تعلقات خود بخود بہتر ہوجاتے ہیں، اس لئے اب پوری دنیا میں سفارتخانوں کے اہم مشن میں معاشی تعلقات کو مضبوط بناکر ان ممالک کی باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا شامل ہے جس کیلئے سفارتخانوں میں کمرشل قونصلرز تعینات کئے جارہے ہیں۔ پاکستان نے بھی تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے دنیا کے اہم ممالک میں قائم اپنے سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں کمرشل قونصلرز یا ٹریڈ اتاشی تعینات کررکھے ہیں۔ ماضی میں ایسے کمرشل قونصلرز کی سیاسی بنیادوں پر من پسند تقرریاں کی گئیں جو اِس سے قبل مختلف حکومتی اداروں میں کام کرتے تھے اور اُنہیں تجارت یا مارکیٹنگ کا کوئی تجربہ نہ تھا جس کی وجہ سے وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے اور قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ان کمرشل قونصلرز پر حکومت کے اربوں روپے ضائع ہوئے۔ یہ کمرشل قونصلرز پاکستان میں منعقدہ تجارتی ایکسپو میں اپنے دوستوں اور من پسند شخصیات کو سرکاری مہمان کی حیثیت سے مدعو کرتے تھے جن کے سفر و قیام کے اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرتی تھی لیکن ان سرکاری مہمانوں کے دورے محض ’’مفت چھٹیاں‘‘ ثابت ہوتی تھیں۔
میڈیا میں ایسے نااہل اور سیاسی من پسند کمرشل قونصلرز پر شدید تنقید کے بعد اب وزارت تجارت اور ٹی ڈیپ نے قواعد و ضوابط کے تحت حکومتی اداروں سے کمرشل قونصلرز کا انتخاب شروع کیا ہے جس میں زیادہ تر لوگ میرٹ پر متعین کئے جارہے ہیں جس کے اچھے نتائج دیکھنے میں آرہے ہیں۔ حال ہی میں ٹورنٹو میں تعینات پاکستان کے قونصل جنرل اصغر علی گولو سے میری اور ایس ایم منیر کی ملاقات ہوئی اور ان کے ساتھ ٹورنٹو میں پاکستانی بزنس کمیونٹی کی کئی تقریبات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اصغر علی گولو نہ صرف پاکستانی کمیونٹی میں نہایت مقبول ہیں بلکہ پاکستان کی تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے سخت محنت کررہے ہیں۔ ہانگ کانگ میں متعین قونصل جنرل غفران میمن اور ان کی اہلیہ کا ہانگ کانگ کی بزنس کمیونٹی میں نہایت اثر و رسوخ پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے نیویارک، ہوسٹن، سربیا، ابوظہبی، دبئی، جدہ، دہلی اور دیگر ممالک کے دوروں میں میری ملاقات ان ممالک میں تعینات کمرشل قونصلرز سے ہوئی جو نہایت محدود وسائل کے باوجود تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ٹی ڈیپ کا چیف ایگزیکٹو بننے کے بعد ایس ایم منیر نے بیرون ملک بزنس مینوں کو ایکسپو پاکستان میں حکومتی خرچے پر مدعو کرنے کیلئے ایک شفاف طریقہ کار متعارف کرایا ہے جس کے تحت کمرشل قونصلرز اپنے ممالک سے صرف ان بزنس مینوں کو حکومتی خرچے پر پاکستان مدعو کرسکتے ہیں جن کا پاکستان سے تجارت میں خاطر خواہ حجم ہو جس کے بعد اب زیادہ تر ایکسپو کے مہمان حقیقتاً بزنس مین ہوتے ہیں۔ میں ٹی ڈیپ اور اس کے سربراہ ایس ایم منیر کو اس طریقہ کار پر میرٹ پر عمل کرنے اور حکومت کے کروڑوں روپے بچانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
حال ہی میں حکومت نے 43نئے کمرشل قونصلرزجن میں 5 خواتین بھی شامل ہیں، کو بیرون ملک تعینات کیا ہے۔ ان ممالک میں روم، پیرس، تہران، کاسابلانکا، ہوسٹن، مانچسٹر، ریاض، ابوظہبی، ڈھاکہ، کولمبو، ماسکو، شنگھائی، مانٹریال، ہانگ کانگ، نیویارک، لندن، لاس اینجلس، شکاگو، جنیوا، جدہ، ٹوکیو، دبئی، بینکاک، ہیگ، اوساکا، نیروبی، الماتے، کابل، چینڈو، میڈرڈ، جوہانسبرگ، لاگوس، جکارتہ، ہنوئی، قندھار، سڈنی، برلن، اسٹاک ہوم، پراگ، کوالالمپور، بونسرا اور سیول شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ کمرشل قونصلرز فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) میں بزنس لیڈرز سے ملاقات کیلئے کراچی آئے تھے۔ مجھے بھی فیڈریشن کے صدر نے اس اہم میٹنگ میں مدعو کیا تھا تاکہ بزنس کمیونٹی اپنے تجربے کی بنیاد پر ان نئے کمرشل قونصلرز کی رہنمائی کرسکے۔ میں نے پاکستان کے ان نئے تجارتی سفیروں کو مبارکباد دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں تعیناتی کے بعد پاکستان میں آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی کامیابی کی وجہ سے امن و امان کی بہتر صورتحال، حکومت کی بہتر معاشی کارکردگی اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں میں چین کی 46 ارب ڈالر کی ریکارڈ سرمایہ کاری سے پیدا ہونے والے مواقعوں اور پوٹینشل کی طرف بیرونی سرمایہ کاروں کی توجہ مبذول کرائیں۔ ٹی ڈیپ کے چیف ایگزیکٹو نے مجھ سمیت ممتاز ایکسپورٹرز سے مشاورت کے بعد اپریل 2016ء میں ایکسپو پاکستان کی طرز پر پاکستان ٹیکسٹائل کی پہلی بین الاقوامی نمائش ’’ٹیکسپو پاکستان‘‘ کے انعقاد کا فیصلہ کیا جس میں پاکستان کے تمام بڑے ٹیکسٹائل مینوفیکچرز اور ایکسپورٹرز حصہ لیں گے جس سے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو عالمی سطح پر شوکیس کرنے کا بہترین موقع ملے گا۔میں نے ان کمرشل قونصلرز کو بتایا کہ وہ یورپی خریداروں کو پاکستان کو جی ایس پی پلس کے تحت یورپی یونین کو 10سالہ ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی مراعات کے بارے میں تفصیل سے بتائیں۔ اسی طرح پاکستان ترکی کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدہ (PTA) کرنے جارہا ہے جس میں ہماری کوشش ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھی شامل کیا جائے جس سے پاکستان کی ترکی میں ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ ایران سے معاشی پابندیاں ہٹنے اور پاکستان اور ایران کے بینکنگ روابط بحال ہونے کے بعد دونوں ممالک کی تجارت میں اضافے کا بے انتہا پوٹینشل پایا جاتا ہے۔ ہم پڑوسی ملک ہونے کے ناطے کم وقت اور لاگت میں اپنی اشیاء بالخصوص چاول اور ٹیکسٹائل مصنوعات ایران کو ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔ ایران پر معاشی پابندیاں لگنے کے بعد بھارت نے ہماری چاول کی ایکسپورٹ مارکیٹ کا شیئر لے لیا تھا جو اب ہمیں دوبارہ مل سکتا ہے۔ اس موقع پر فیڈریشن کے سینئر نائب صدر خالد تواب، رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ اور فیڈریشن کے سابق سینئر نائب صدر عبدالرحیم جانو اور پیٹرولیم پروڈکٹس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالسمیع خان نے بھی ایران سے تجارتی تعلقات کے پوٹینشل پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک پاکستان کی سنگل کنٹری نمائش اور تجارتی وفود کے تبادلے بھی تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ عبدالرحیم جانو کی سربراہی میں فیڈریشن نے رواں سال پاکستان کی بیرون ملک کئی نمائشیں اور وفود کے دورے رکھے ہیں جس کی کامیابی میں بیرون ملک متعین پاکستانی کمرشل قونصلرز اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں حلال فوڈ کے فروغ کے بانی سجاد اختر اور میں نے حلال فوڈ کی مصنوعات کی ایکسپورٹ کے بارے میں بتایا کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ حلال فوڈ غیر مسلم ممالک ایکسپورٹ کررہے ہیں جس کا کچھ شیئر ہم حاصل کرسکتے ہیں۔ ڈی ایٹ کے 8 ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان، ترکی، بنگلہ دیش، مصر، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا، نائیجریا شامل ہیں، نے حال ہی میں ایک ترجیحی تجارتی معاہدے (PTA) پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت ان ممالک میں تجارت پر ترجیحی ٹیرف لاگو ہوگا جس کی وجہ سے ان ممالک کی باہمی تجارت میں فروغ متوقع ہے۔ میں نے کمرشل قونصلرز کو FPCCI کی غیر ملکی فیڈریشنز کے ساتھ جوائنٹ بزنس کونسلز کو فعال بنانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پرائیویٹ سیکٹر کے باہمی روابط بڑھ سکیں۔ اس موقع پر کمرشل قونصلرز نے بزنس لیڈرز سے مختلف سوالات کئے اور بزنس کمیونٹی سے ان کی توقعات معلوم کیں۔ میں نے کمرشل قونصلرز سے کہا کہ وہ مجھ سے رابطے میں رہیں، میں ہر ہفتے انہیں اپنے معاشی کالم بھیجوں گا تاکہ انہیں اہم ملکی معاشی امور سے آگاہی رہے۔ فیڈریشن اور بزنس کمیونٹی کے لیڈرز نے تمام کمرشل قونصلرز کو اپنی دعائوں اور اس امید کے ساتھ رخصت کیا کہ وہ بیرون ملک پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے۔میری حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ ان کمرشل قونصلرز کو بیرون ملک مطلوبہ سہولتیں اور وسائل فراہم کرے تاکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوسکیں۔
تازہ ترین