• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کلارا28مارچ1886ء کو یوکرائن کے گائوں گوروڈوک میں پیدا ہوئی۔ کتاب پڑھنے کا شوق ورثے میں ملا۔ غربت بھی اسے اس شوق کو پورا کرنے سے نہ روک سکی ۔ سلائی کڑھائی اور لوگوں کے خط لکھ کر وصول شدہ پیسوں سےکتب کی خریداری کرتی ۔ انقلابی سوشلسٹ ادیب لم لچ کو پڑھنے کا اتفاق ہواتووہ اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے لم لچ کو اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور کلارا لم لچ بن کراسکی سوچ پر چلنے کا فیصلہ کر لیا۔1903ءمیں اسکے والدین امریکہ منتقل ہو ئے تونیویارک میںواقع گارمنٹ فیکٹر ی میں17 سالہ کلارا کو نوکری مل گئی ۔ فیکٹری میں کارکنان خصوصاً خواتین کیلئے حالات نہایت ناگفتہ بہ تھے۔کم تنخواہ، کام کے زیادہ اوقات کار ، صحت اور تعلیمی سہولتوں کی عدم فراہمی پر وہ بالکل بھی مطمئن نہ تھی۔انڈسٹریل سلائی مشین کے متعارف ہونے کے بعد جب پیداوار دگنی ہوگئی توخواتین ورکرز کے مشاہروں میں اضافے کا جائز مطالبہ انتظامیہ نے سختی سے رد کردیا ۔اس صورتحال سے نمٹنے کیلئےکلارا نے انٹر نیشنل لیڈیز گارمنٹ ورکرز یونین کی رکنیت حاصل کی۔ ایگزیکٹو بورڈ کی رکن منتخب ہونے کے بعداس نےگارمنٹ کارکنان کو منظم کرنا شروع کردیا۔نوجوان کلارا شاندار شخصیت کی حامل تھی۔ ہمدردانہ رویے، زور خطابت اوربہادری کی خصلت سے مزین کلارا راتوں رات خواتین کارکنوں کے دل کی دھڑکن بن گئی ۔اکثر خواتین نے خوش شکل ، متاثر کن آواز کی مالک کلارا کو اپنامرشد بنا لیا۔ جادوئی خصوصیات کی حامل کلارا نے خواتین کی حالت کو سدھارنے کیلئے متعدد ہڑتالیں کروائیں جو فیکٹری مالکان کو بالکل نہ بھائیں۔ انھوں نےکرائے کے غنڈوں کی مدد سے کلارا کو ڈرایا دھمکایا جنھوں نے تشدد کرکےاسکی پسلیاں توڑ ڈالیںلیکن کلارا نے ہار نہیں مانی۔22 نومبر 1909میں دو گارمنٹ کمپنیوں کے خلاف کارکنوں کی ہڑتال میں رہنمائوں کی روایتی تقاریر جاری تھیں۔23 سالہ کلارا کی جب باری آئی تو اس نے حاضرین سے ایک انوکھا وعدہ لیا اور پوری دنیا کی نظروں میں آگئی۔ جوش سے بھرپور تقریر کرتے ہوئے اس نے دایاں ہاتھ بلند کیا اور بولی اے خدا۔۔! اگر میں کارکنوں سے غداری کرتے ہوئے ہڑتال سےپیچھے ہٹ جائوںتو میرا ہاتھ سوکھ کر جھڑ جائے۔مجمع ہکا بکا رہ گیا۔آج تک کسی نے ایسا نعرہ مستانہ نہ لگایا تھا۔اسکی کھنکھناتی بلندآواز ایک بار پھرابھری۔ ساتھ دو گے میرا؟وعدہ کرتے ہو ؟ مبہوت مجمع یکدم جاگ گیا اور کلارا کی حمایت میںنعرے بلندکرکے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔چاروں طرف کلارا ۔کلارا ۔ہم تمہارے ساتھ ہیں کے فلک شگاف نعرے گونج رہے تھے۔ 20ہزار کارکن خواتین نے جب کلار اکی قیادت میں نیویارک کی سڑکوں پر مارچ کیا توفیکٹری مالکان کا سنگھاسن تہہ و بالا ہونے کا سامان ہوگیا۔ 1913ءمیں کلارا نے شیولسن سے شادی کرنے کے بعد بھی ورکنگ گرل کو ووٹ کا حق دینے ، کام کرنے کی جگہ کو صاف اور محفوظ بنانے،میٹرنٹی چھٹیاںاور کام کے اوقات کو مناسب کروانے کیلئے سخت جدوجہد کی اور امریکہ کی ہیروئین بن گئی ۔کلارا کی تحریک کی وجہ سے1969 تک انٹرنیشنل لیڈیز ورکرز یونین امریکہ کی بڑی لیبر یونین بن گئی جسکے ممبران کی تعداد ساڑھے 4 لاکھ تک جاپہنچی۔1982میں کلارا 96 سال کی عمر میں کیلیفورنیا میں انتقال کر گئی۔8 مارچ 1914میں پہلی مرتبہ انٹرنیشنل ویمن ڈے غالباً اس لئے منایا گیا کہ اس روز اتوار تھا اور منتظمین زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت چاہتے تھے۔ 102سال سے انٹرنیشنل ویمن ڈے 8 مارچ کو ہی منایا جاتا ہے ۔آج پاکستان میں بھی یہ دن بڑی دھوم دھام سے منایا جارہا ہے۔کلارا کو یاد کرتے ہوئے میرے ذہن میں مریم نواز شریف آگئیں۔ 2011 میں مریم نواز شریف نے پاکستانی لڑکیوں اور خواتین کے تعلیمی اور دیگر بنیادی حقوق پر مبنی عوامی فلاحی منصوبوں پر کام کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔اسی تناظر میںانھیں2013 میں وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئر پرسن مقرر کر دیا گیا تو تبدیلی کے نام نہاد دعویدارتنقید کا ڈھول پیٹتے ہوئے اس معاملے کو عدالت لے گئے ۔عدالتی حکم پر مریم نواز نے اس عہدے سے استعفیٰ تو دے دیالیکن خدمت کرنے کے جذ بہ سے دستبردار نہ ہوئیں اور پہلے سے بھی زیادہ بڑا منصوبہ لیکر سامنے آگئیں۔ وائٹ ہائوس امریکہ میں مشعل اوباما کی موجودگی میںمریم نواز شریف نے بین الاقوامی منصوبہ لڑکیوں کو پڑھنے دو کاا علان کیا جس کے تحت 70ملین ڈالر پاکستانی لڑکیوں کی تعلیم کیلئے خرچ کیے جائیں گے۔یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت 10سے 19 سال کی 2 لاکھ پاکستانی لڑکیاں اس منصوبے سے استفادہ کرکے مفید شہری بن سکیں گی۔ اس تاریخی پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے پنجگران سیکنڈری ہائی اسکول اور کالج کو ماڈل تعلیمی ادارہ قرار دیتے ہوئے تدریسی سہولتوں میں بہتری کے اقدامات کردئیے گئے ہیں۔پہلے مرحلے میں21 مزید اسکولوں کالجوں اور اسکے بعد 400 مزید تعلیمی اداروں میںبھی یہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔اصلاحات میں انفراسٹرکچر کی بہتری،آئی ٹی سہولتوں کی فراہمی، لائبریری، سائنس لیبارٹریاں، مونٹیسوری کلاسوں کا اجراء، ای لرننگ کانسپٹس، ا سپیشل ایجوکیشن، اساتذہ کی تربیت، نصاب کی تبدیلی، بائیو میٹرک حاضری کا نظام،20 بسوں کی فراہمی اور حفظان صحت کے مطابق ماحول کو یقینی بنانا ہے۔اساتذہ، اسٹوڈنٹس اور والدین اپنی شکایات ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے کر سکتے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر تحفظ خواتین بل قانون بن چکا ہے جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے اسکی مخالفت شروع کرکےمتنازع بنانے کی سازشیں شروع کردی گئی ہیں ۔ایسے عناصر یاد کریں کہ رحمت دوجہاںپیغمبر اسلام رحمتہ لعا لمین حضرت محمد ﷺکا رویہ اپنی بیوی،بیٹی اور دیگر خواتین کے ساتھ کیسا تھا؟آنحضورنے توانھیں رحمت قرار دیا تھا۔خواتین کی عزت کرنا انکی حفاظت کو یقینی بناناکہاں سے زن مریدی ہے؟یہ قانون نہ صرف خواتین بلکہ بلاتخصیص جنس ہر شخص کوجارحیت سے روکتا ہےاور معاشرے کے امن کو برقرار رکھنے کی ایک کاوش ہے جس کی جتنی بھی توصیف کی جائے وہ کم ہے۔بشریت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اگر اس میں کوئی امرمانع ہے تو اسمبلی میںہی اس پر بحث کی جائے اوراس میں ترمیم کردی جائے نہ کہ اسے متنازع بنایا جائے۔
تازہ ترین