• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کریں تو ہر کسی کی زبان پر ایک ہی جواب ہے، انتخابات کا التواء چاہتے ہیں۔ اچھے خاصے سنجیدہ و فہمیدہ لوگ ان کی اس تمام تگ و تاز کو مارشل لاء کا راستہ ہموار کرنے کی نپی تلی سکیم قرار دیتے ہیں اور ایک معتدبہ حصہ ان کی قیادت میں قائم عبوری حکومت دیکھ رہا ہے جس کا دورانیہ مہینوں کی بجائے سالوں کا احاطہ کر سکتا ہے۔ یہ کوئی بھی ماننے کے لئے تیار نہیں کہ در پردہ انہیں کسی کی اشیر باد نہیں ہے حالانکہ فوج عدلیہ اور امریکہ نے ان کے افعال سے لاتعلقی کا واضح اظہار کر دیا ہے۔ سارے سوال جواب امکانات اور خدشات اپنی جگہ بجا لیکن پاکستان لوٹنے سے قبل ان کی تشہیری مہم پھر کامیاب جلسے کے انعقاد اور اپنے لئے دنوں کے اندر ایسی موثر اور حیران کن حیثیت کا حصول ایسے معجزاتی کارنامے ہیں جن پر انہیں داد نہ دینا خستِ طبعی کے علاوہ اور کچھ نہیں قرار پاتا۔ تنظیم و تشہیر کے حوالوں سے انہوں نے جماعت اسلامی کی انگلیاں بھی زنانِ مصر کی طرح ان کے دانتوں تلے دے دی ہیں۔
اپنے روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل کی بناء پر عوام ہر ایسے لیڈر کے جلسے میں لپک کر شمولیت اختیار کرتے ہیں جو موجودہ حکمرانوں کے لتے لینے پر آمادہ ہو، ان میں پرانے سیاسی اداکاروں سے نجات حاصل کرنے کی جوت جگاتا ہو۔ اسی مینار پاکستان کے اردگرد پھیلے وسیع و عریض میدان میں کچھ ہی عرصہ پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے جلسہ میں عوام کی بھرپور شرکت بھی ان کی موجودہ حکمرانوں سے اکتاہٹ اور بیزاری کی بناء پر ہی تھی۔ علامہ طاہر القادری کے کامیاب جلسہ کی وجہ بھی سیاست میں پرانے چہروں کے خلاف نفرت کا اظہار ہی تھی۔ بازارِ سیاست میں سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کی مقبولیت کے گراف بھی سٹاک ایکسچینج مارکیٹ کی طرح اوپر تلے ہوتے رہتے ہیں لیکن طاہر القادری تو باقاعدہ طور پر ملکی سیاست کا حصہ ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کوئی ارادہ ظاہر کر رہے ہیں پھر ایسے میں کونسی توقعات یا مقاصد ہیں جو ایسے سرد موسم میں عوام کو جوق در جوق اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ پر اکسائیں گے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرف سے لانگ مارچ میں شمولیت کے اعلان نے پنجاب کے لوگوں پر کوئی مثبت اثر نہیں چھوڑا کیونکہ اس صوبے کی حد تک اس تنظیم کی عرفیت اچھی سیاسی اصطلاحات سے وابستہ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک انتہائی ذمہ دار عہدے پر مامور دوست نے مجھے آف دی ریکارڈ بتایا کہ الطاف بھائی کا یہ پہلا فیصلہ ہے جس پر عام کارکن بھی تحفظات کا شکار پایا جاتا ہے لہٰذا اگر کراچی اور حیدر آباد سے تنظیم کے ورکرز آئے بھی تو ان کے دل حقیقی جذبات سے خالی ہوں گے۔ چوہدری برادران بھی علامہ صاحب کے آستانے پر جا کر جس مالی اور اخلاقی حمایت کا اظہار کر آئے تھے اس پر انہیں پارٹی کے اندر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جوں جوں لانگ مارچ کا وقت قریب آ رہا ہے اس کے غبارے سے ہوا بدستور کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مجوزہ لانگ مارچ اور اس کے نتائج کا قبل از وقت اندازہ کرنے کے لئے یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ علامہ طاہر القادری لینن، ماؤ اور ذوالفقار علی بھٹو ہیں اور نہ ہی امام خمینی اور یہ پاکستان ہے جہاں ایک عوام کی منتخب حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد رخصتی کیلئے از خود تیار بیٹھی ہے۔ نگران حکومت کے قیام میں چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور عام انتخابات کے انعقاد میں چند مہینے۔ عوام اس وقت کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں جب ووٹ کی طاقت سے وہ اپنی پسند کی حکومت تشکیل کرنے کا موقع پائیں گے۔ راقم کے نزدیک 1970ء کے بعد یہ پہلی دفعہ ہونے جا رہا ہے کہ عوام پرانے چہروں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر امیدوں کے نئے مرکز قائم کریں گے۔ علامہ صاحب کو چاہئے کہ وہ انتخابات کے التواء، عبوری حکومت کی سالوں پر طوالت، پہلے احتساب پھر انتخاب، یا میرے عزیز ہم وطنو!! کی طرف ملک و قوم کو لے جانے کی بجائے صاف شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی طرف موڑنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔ غیر جانبدار اور منصفانہ انتخابات کو ممکن بنانے کیلئے بہت سے اقدامات کئے جا چکے ہیں اور اگر ان کے نزدیک اس میں کوئی کمی باقی ہے تو اس کے ذمہ دار اداروں سے مل کر اسے بھی دور کروانے کی کوشش کریں۔ ایک خیر اندیش اور فرمانبردار شاگرد کی حیثیت سے میری ان سے ذاتی گزارش ہے کہ زندگی وقت کے انتہائی قلیل عرصہ کا نام، خدا انہیں عمر خضر عطا کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ حصہ وہ بھی گزار چکے ہیں ملک و قوم کو ان کی ضرورت بھی ہے لہٰذا کینیڈین شہریت ترک کر کے اپنی پارٹی کو متحرک و فعال بنائیں اور سر پر کھڑے دستک دیتے انتخابات کا حصہ بنیں۔ قوم کسی تیسرے آپشن کی منتظر اور پیاسی ہے اور قدرتِ حق نے آپ کو یہ صلاحیت عطا کر رکھی ہے کہ اپنی بات قوم کو پہنچا اور سمجھا سکیں۔ آیئے سیاست میں بھرپور حصہ لیجئے اور ریاست کو ڈوبنے سے بچایئے۔ جو راستہ آپ نے ابھی تک اپنا رکھا ہے آپ کو سمندر سے اٹھ کر ریتلے ساحل پر بغیر کوئی نقش چھوڑے واصل سمندر ہو جانے والی موج کے مترادف نہ کر دے۔
تازہ ترین