• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر میں عمومی طور پر سب سے نچلی ذات کے لوگوں اور طبقوں کے رنگ سیاہی مائل ہیں جبکہ اوپر کی ذاتیں قدرے صاف رنگ کی ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ تاریخ کے کسی دور میں سفید فام نسلوں نے مقامی کالے رنگ کے لوگوں کو فتح کر کے غلام بنا لیا۔ اسے آریاؤں کا دراوڑوں پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ بعد میں یہ تاریخ دانوں کے درمیان شدید بحث کا موضوع رہا کہ کیا آریاؤں نے یکدم حملہ کیا تھا یا وہ کئی سو یا ہزار سالوں میں پنجاب پر قابض ہوئے تھے۔ پچھلے کچھ سالوں میں جنیاتی سائنس (Genetics) نے بہت سے سوالوں کے حتمی جوابات فراہم کرتے ہوئے ثابت کردیا ہے کہ دوہزار سال قبل وسط ایشیا سے ایک بہت بڑا گروہ افغانستان اور پنجاب میں داخل ہوا اور اس کے جین یورپیوں سے ملتے ہیں۔ اس طرح کی دریافت نے تاریخ کو نئے سرے سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے لیکن وہ دانشور جو آریاؤں کی آمد اور غلبے کو اپنے تئیں غلط ثابت کر چکے تھے، اپنی بات پر بضد ہیں اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے نت نئے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں میں اکثریت سائنسی نظریے کو ماننے والوں کی ہے۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر معروضی فکر کے داعی اپنے نظریے کو مذہبی عقیدہ بنا کر ناقابل تردید سمجھنے لگتے ہیں تو پھر عام لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ اس طرح سے ہمیں چاروں جانب حقائق کے بجائے عقیدوں کی جنگ نظر آرہی ہے۔ مجید امجد مرحوم کا ایک شعر یاد آرہا ہے:

دنیا جڑی تڑی سچائی، سب سچے ہیں کوئی یہاں

اس اندھیر سے نکلے اپنے جھوٹے روپ کے درشن کو

پاکستان میں تو بے بنیاد اعتقادات کی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ اس کی ایک مثال وہ تھی جب ایک نوجوان نے پانی سے بجلی چلانے کا دعویٰ کیا تھا۔ بہت سے معتبر ٹی وی اینکروں نے بھی اس کو چاروں اور پھیلایا تھا اور سوائے پرویز ہود بھائی کے کوئی سائنس دان بھی سامنے آکر اس تصوراتی سائنس کی تردید کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ریاست کے اکثر ادارے بھی اس جنون کا حصہ بن گئے تھے اور بعض حلقے تو شاید اب بھی مصر ہیں کہ اس نوجوان کے مشورے پر اس لئے عمل نہیں کیا گیا کہ اس کا تعلق ایک مخصوص قومیتی اور لسانی گروہ کے ساتھ تھا۔

پاکستان کی معاشیات اور سیاست میں محض پانی سے گاڑی چلانے کی ایک طویل روایت بن چکی ہے۔ میں پاکستان کی تعمیر اور اس کے پہلے ادوار کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے صرف پچھلے چالیس سالوں کو ہی دیکھوں تو لگتا ہے کہ گاڑی پانی سے ہی چلتی رہی ہے۔ اس سارے عرصے میں لاکھوں لوگ بظاہر کچھ کئے بغیر ہی کیسے کروڑ سے ارب پتی بن گئے، طلسماتی جیسا عمل لگتا ہے۔ ان تمام امرا کو بباطن علم ہے کہ ان کی گاڑی پانی سے ہی چلی ہے۔ سیاست کے میدان میں آجائیں تو اسی کی دہائی میں شریف خاندان کا یکایک مقتدر حلقوں میں شامل ہونا بھی کچھ اسی طرح کا ہی عمل ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے تو ریاستی اقتدار تک رسائی جادو ٹونے کے ٹوٹکوں سے ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

سیاست کے میدان میں تو ہم سب ہی پانی سے گاڑی چلاتے رہے ہیں۔ مثلاً ہمارے جیسے بہت سے لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ اگر سوشلزم آجائے تو راتوں رات معاشرے کی تمام برائیاں دور ہو جائیں گی اور ملک جنت فردوس بن جائے گا۔ اسی طرح مذہبی سیاسی جماعتوں کے پیروکاروں کا مستحکم عقیدہ تھا کہ اسلامی نظام کے آتے ہی معاشرہ صالح ہو جائے گا۔ پہلے والے ہمارے گروپ کو تو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ستر کی دہائی کے وسط تک پتہ چل گیا تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ بائیں بازو کے گروپ اور پارٹیاں بکھر کر رہ گئیں۔ جنرل ضیاءالحق کی اسلامائزیشن کے ساتھ مذہبی مذہبی جماعتوں کے نظریاتی پہیے سے ہوا نکل گئی تھی۔ ویسے تو یہ جنرل یحییٰ خان کے دور میں میاں طفیل محمد نے اس پہیے سے اس وقت ہوا نکال دی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ ’قوانین اسلامی ہو گئے ہیں اب ان پر عمل کرنا عوام پر منحصر ہے‘ لیکن بجائے یہ تسلیم کرنے کے کہ ہم پانی سے گاڑی چلا رہے تھے سب نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ’’اصلی تے وڈا‘‘ سوشلزم اور اسلام آئے ہی نہیں، یعنی خوئے بد را بہانہ بسیار۔

موجودہ حکومت اور اس کے جیالے پیروکار تو ہم سب پر بازی لے گئے۔ ان کے تصورات میں سابقہ حکمرانوں کے کئی سو ارب ڈالر ملک واپسی کے منتظر تھے، اس لئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے دربار میں حاضری کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ نا موجود اربوں ڈالر نہ تھے نہ آنے تھے لہٰذا معیشت کی گاڑی جھٹکے کھاتی کھاتی رکنے کے قریب آگئی۔ لیکن ان کو داد دیجئے کہ وہ اب بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ پانی سے گاڑی چلانے کے وہم میں مبتلا تھے۔ وہ اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں وقت دو، ہم اس طرح سے گاڑی چلا کر دکھا دیں گے: زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔

اگرچہ من گھڑت طریقوں اور حقائق کی نفی سے تاریخی عقیدوں کو قائم رکھنا بھی کافی خطرناک ہے (جیسا کہ برصغیر کی ریاستیں کر رہی ہیں) لیکن بگڑتے ہوئے معاشی حالات سے آنکھیں پھیر لینے سے تو بچوں کا دودھ اور بڑوں کی دوائیاں تک متاثر ہوتی ہیں۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستانی ریاست کے چلانے والوں کو ابھی تک یہ احساس نہیں ہوا کہ بنگلہ دیش آٹھ فیصد کے قریب سالانہ ترقی کرتے ہوئے ان سے بہت آگے نکل چکا ہے اور وہ اس دوران پانی سے معاشی گاڑی چلانے کی موہوم امیدوں کے اسیر رہے ہیں ۔ لیکن کب تک؟

تازہ ترین