• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ اللہ، خدا خدا کرتے، رمضان المبارک کا مہینہ خیریت سے گزر گیا۔ علم اقتصادیات کے ماہروں نے نظر نہ آنے والی لکیر کھینچ رکھی ہے۔ نظر نہ آنے والی لکیر کا نام ہے غربت کی لکیر، غربت کی لکیر بذات خود نظر نہیں آتی مگر نظر نہ آنے والی غربت کی لکیر کے نیچے اور اوپر رہنے والے لوگ صاف دکھائی دیتے ہیں۔ آنکھوں سے اوجھل غربت کی لکیر سے اوپر آپ، میں اور ہم جیسے اللہ کے نیک بندے رہتے ہیں۔ ہم ڈٹ کر سحری کرتے ہیں اور جب سحری کا وقت ختم ہونے کا سائرن سنتے ہیں تب توانائی اور طاقت بخش گولیاں ملک شیک کے ساتھ پھانک لیتے ہیں۔ کرنے کو ہوتا تو بہت کچھ ہے مگر دن بھر ہم کچھ نہیں کرتے۔ افطار کی بھرپور تیاریاں دیکھنا، ہمارا بھرپور مشغلہ ہوتا ہے۔ افطار کے ساتھ ساتھ رات کے کھانے یعنی ڈنر کی تیاریاں بھی دیکھتے ہیں۔ مرغ مسلم، دم پخت بریانی، قورمہ، نرگسی کوفتے، تندوری مٹن ران، رس ملائیاں، آئس کریمیں، فیرنیاں اور مشروبات کی تیاری دیکھتے دیکھتے افطار کی اذان سنتے ہیں۔ سبحان اللہ، کس قدر مومنانہ زندگی ہم بسر کرتے ہیں۔ ماشاء اللہ، اللہ ہمیں نظر بد سے بچائے۔

غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے بھی ہماری طرح اللہ کی مخلوق ہوتے ہیں۔ مگر ان کے نصیب میں دانہ پانی کم لکھا ہوا ہوتا ہے۔ افطار کے لوازمات سے جو کھانا بچ جاتا ہے وہ سب ہم ریفریجرٹر اور ڈیپ فریزروں میں اسٹور نہیں کرتے۔ افطار کے لوازمات سے بچا کھچا کھانا ہم غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو بھیج دیتے ہیں اور ثواب کماتے ہیں۔ غربت کی لکیر سے بہت نیچے زندگی گزارنے والوں پر ترس کھاتے ہیں اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ان کا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے نے کچھ عرصہ سے نمایاں طور پر نیکی کی طرف رُخ کیا ہے۔ ہم چاہے عدالتوں میں جھوٹی قسمیں کھا کر گواہی دینے کا کاروبار کرتے رہیں۔ ٹیکس کی مد میں ایک پائی نہ دیں، ہم نے چلتے پھرتے روزہ داروں اور مسافروں کو روزہ افطار کروانے کی نیکی پر عمل شروع کر دیا ہے۔ جس طرح عاشوروں میں سبیلیں لگتی ہیں، عین اسی طرح پاکستان کے بڑے شہروں میں نیک و کار روڈ، راستوں چوراہوں اور فٹ پاتھوں پر افطار کا اہتمام کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں نیکیوں کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ویسے بھی آخرت کی مد میں دیئے گئے ٹیکس کی اہمیت سرکار کو واجب الادا ٹیکس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

آپ کو متاثر کرنے کیلئے بتا دوں کہ کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ بھئی بالم تمہارا رمضان کیسے گزرا؟ میرے پاس سلیمانی ٹوپی کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ عام سلیمانی ٹوپی پہننے سے آپ دیکھنے والوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو سکتے ہیں۔ میں بھی سلیمانی ٹوپی پہننے کے بعد کسی کو نظر نہیں آتا۔ میں بلا ناغہ کپتان عمران خان کی اہم اور خفیہ میٹنگز میں جا کر بیٹھ جاتا ہوں اور آنکھوں دیکھا حال آپ کو سناتا ہوں۔ اس سے پہلے یہ کام میں میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں بھی کرتا تھا اور یہ کام میں اس دن سے کرتا چلا آرہا ہوں۔ جس دن تاجدارِ برطانیہ نے ہندوستان کے بٹوارے اور مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ وطن پاکستان بنانے کے فرمان پر دستخط کئے تھے۔ سلیمانی ٹوپی پہن کر روز اوّل سے میں مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ تھلگ ملک پاکستان کے ایوانِ اقتدار کے خفیہ خانوں میں گھومتا رہا ہوں۔ سلیمانی ٹوپی کے دوسرے ایڈیشن کا کمال یہ ہے کہ کسی کو دکھائی نہ دینے کے علاوہ میں لوگوں کی نیتیں پڑھ لیتا ہوں۔ میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ اس وقت آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ آپ یہی سوچ رہے ہیں ناکہ بالم تیری حیثیت ہی کتنی ہے کہ لوگ تجھ سے پوچھیں کہ اس مرتبہ ماہ رمضان تم نے کیسے گزارا؟ کیا تو سیلیبریٹی ہے؟ کیا تو ایکٹر ہے؟ بغیر پاپ کئے ہوئے تو کیا پاپ سنگر ہے؟ کیا تو مسخرہ ہے اور کسی تفریحی پروگرام میں فی البدیہہ فقرے چست کر کے ناظرین کو ہنساتا ہے؟ کسی کو کیا پڑی ہے کہ تجھ سے پوچھے کہ تیرا رمضان کیسے گزرا؟ ایک انگریزی لفظ Chillبرگر فیملیز میں عام ہو گیا ہے۔ اگر آپ غصہ سے تلملا رہے ہیں، تو وہ آپ سے کہیں گے Chillیعنی ٹھنڈے ہو جائو۔ لہٰذا میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ حضور Chillہو جائیں۔ کسی نے بھی مجھ سے نہیں پوچھا ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ میں نے کیسے گزارا تھا۔ میں آپ کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا تھا بلکہ میں آپ پر رعب ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا۔

میں اپنے طور پر چاہتا ہوں کہ آپ کو بتادوں کہ رمضان کا مقدس مہینہ میں نے نمازیں پڑھیں، میں نے نمازیں نہیں پڑھیں، یہ میرے اور میرے مولیٰ کے درمیان کی باتیں ہیں۔ کسی کو میرے اور میرے مولیٰ کے درمیان آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے جنت میں جانے یا دوزخ میں جانے کی فکر آپ کو کیوں لاحق ہو گئی ہے؟ ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان کا مہینہ میرے لئے آزمائشوں کا مہینہ بن کر آیا تھا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں جھوٹ بولتا ہوں۔ جھوٹ سنتا ہوں اور جھوٹ لکھتا ہوں۔ میں سچ برداشت نہیں کر سکتا۔ ماہ رمضان کے دوران تمام دیسی ٹیلی وژن اس قدر لگاتار سچ بولتے ہیں، اخبار اور جریدے اس قدر سچ لکھتے ہیں اور عام آدمی اس قدر سچ بولتے ہیں کہ جس کے سننے اور پڑھنے اور دیکھنے سے میری موت واقع ہو سکتی ہے۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ماہ رمضان میں، میں نے آپریشن کروا کر اپنے کان بند کروا دیئے تھے۔ ہونٹ سی لئے تھے آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ ماہ رمضان کے رُخصت ہوتے ہی میں نے آپریشن کروا کے کان کھلوا دیئے ہیں۔ ہونٹ کھول دیئے ہیں اور آنکھوں سے پٹی اُتار دی ہے۔ اب میں پھر سے جھوٹ سن سکتا ہوں۔ جھوٹ دیکھ سکتا ہوں اور جھوٹ لکھ سکتا ہوں۔

تازہ ترین