• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال حکومتِ پاکستان ایک رپورٹ شائع کرتی ہے جسے ’’پاکستان کا اقتصادی جائزہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ ہماری معیشت نے گزشتہ مالی سال کے دوران کیسی کارکردگی دکھائی۔ اس رپورٹ میں دستوں کے دستے مواد ہوتا ہے مگر اس کا کوئی عنوان نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی حکومت کو شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ اگر اس کا کوئی عنوان رکھا جاتا تو اس مرتبہ یہ رپورٹ ’’نااہلی مہنگی ہے‘‘ کے عنوان تلے شائع ہوتی۔ اب اسے ستم ظریفی کہیے یا المیہ کہ وزیراعظم عمران خان گزشتہ بائیس سال سے اقتدار کے تعاقب میں تھے لیکن اُنہوں نے یہ سیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ حکومت چلانی کیسے ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی نااہلی کسی ایک شعبے تک محدود نہیں کہ آپ کسی ایک وزیر پر نااہلی کا الزام لگائیں اور آگے بڑھ جائیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی نااہلی کا جادو ہر سمت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ آپ جہاں بھی نظر دوڑائیں معاملات خراب تر ہوتے دکھائی دیں گے۔ چنانچہ الزام کسی مخصوص وزیر پر نہیں جاتا۔ مسئلہ وزیراعظم کے ساتھ ہے۔

اب میں واپس اقتصادی جائزے کی طرف آتا ہوں جہاں پی ٹی آئی ہر ہدف پورا کرنے میں ناکام دکھائی دی ہے۔ پی ٹی آئی نے بہت چالاکی لیکن غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ رخصت ہوتی ہوئی مسلم لیگ (ن) حکومت نے ناممکن اہداف طے کیے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر برآمدات، جو کہ ہمارا کمزور ترین شعبہ رہا ہے اور جہاں پی ٹی آئی سے معجزہ دکھانے کی توقع تھی، میں گزشتہ سال ہم نے 13.5فیصد نمو حاصل کی اور سال ختم ہونے پر ہماری کل برآمدات 23.5بلین ڈالر تھیں۔ اس سال ہمارا ہدف، جو پی ٹی آئی نے اختیار کیا، 28بلین ڈالر تھا لیکن نئے مالی سال کے آغاز پر کرنسی کی قدر میں 25فیصد کمی کرنے کے بعد اب پی ٹی آئی نے برآمدات میں منفی شرح نمو حاصل کی ہے۔

مجھے دوبارہ کہنے دیجئے کہ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران پاکستان کی برآمدات گزشتہ سال کی نسبت کم رہیں۔ اب اگر میں نے ٹارگٹ صفر رکھا ہوتا تو پی ٹی آئی حکومت اس کو بھی حاصل نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ منفی نمو کی طرف جا رہی ہے۔ تو کیا وہ چاہتے تھے کہ میں منفی نمو کا ہدف طے کرکے جاتا؟ ایک اور مثال مینو فیکچرنگ کی ہے۔ اس کی شرح نمو کا ہدف رواں سال 6.8فیصد تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے 6.6فیصد کا ہدف حاصل کیا تھا، چنانچہ نظر آرہا تھا کہ اگلے سال اس سے قدرے بہتر ہدف حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا لیکن پی ٹی آئی نے یہاں بھی کمال دکھایا۔ وہ اس کی شرح نمو 2.9فیصد شرح تک لے آئی۔

اسی طرح زراعت کے شعبے کی شرح نمو کی مثال لے لیں۔ یہاں ہم نے گزشتہ سال 3.94شرح نمو حاصل کی۔ رواں سال کے لئے 3.8فیصد کا ہدف طے کیا۔ لیکن پی ٹی آئی صرف 0.8فیصد ہی حاصل کر پائی ہے۔ اب اس حقیقت پر غور کیجئے کہ ہماری آبادی میں سالانہ 2.4فیصد کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس لئے اگر ہماری زراعت کی شرح نمو 2.4فیصد سے کم ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہم گزشتہ سال کی نسبت فی کس کم خوراک پیدا کر رہے ہیں۔ یہ کسی طور پر قابلِ قبول نہیں۔ جب ہم نے زرعی پیداوار میں شرح نمو 3.94ممکن بنائی تھی تو پی ٹی آئی ایسا کیوں نہیں کر پائی؟

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ معیشت کی خرابی کی وجہ مسلم لیگ (ن) کی پالیسیاں تھیں، چنانچہ اس کے لئے پی ٹی آئی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اب میں پوچھتا ہوں: مسلم لیگ(ن)کی کون سی غلط پالیسی تھی یا اس نے کیا برا کیا تھا جس کی وجہ سے گزشتہ سال زراعت کی شرح نمو 3.94فیصد رہی اور اب پی ٹی آئی نے کیا حسنِ کارکردگی دکھائی کہ یہ 0.8فیصد پر آگئی؟ اگر اب کپاس، چاول، گندم اور گنے کی پیداوار کم ہوئی ہے تو اس میں مسلم لیگ (ن) کا کیا قصور؟ تشویش ناک بات یہ ہے کہ کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی آئی ہے۔ کیا اس سال ان اجناس کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن) حکومت ہے؟ آخر کس نہج تک پہنچنے کے بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ پی ٹی آئی معیشت چلانے میں نااہل ہے۔ اتنی نااہل کے زرعی شعبے کی فی ایکڑ پیداوار بھی گر گئی۔ پی ٹی آئی نے ہر شعبے میں قوم کو ناکامی اور مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ابھی یہ چار سال مزید اقتدار میں رہے گی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ یہ حکومت چلانا سیکھ لے۔ مجھے خوشی ہے کہ پی ٹی آئی نے صحت اور معیشت کے شعبوں میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے ٹیم تبدیل کردی لیکن پی ٹی آئی مسلسل پرویز مشرف یا زرداری حکومت کے افراد ہائر کر کے حکومت نہیں چلا سکتی۔

آخر میں، ایک لفظ پیش کیے گئے بجٹ پر، جس میں محصولات کا ہدف 5550بلین روپے رکھا گیا ہے۔ یہ گزشتہ ہدف سے 39فیصد زیادہ ہے۔ صرف میں نہیں، ہر اُس شخص جسے ملک کے فنانس منسٹر کے طور پر خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا ہے، بشمول موجودہ فنانس مشیر، کو علم ہے کہ یہ ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ چند ماہ بعد ہمیں کچھ تخفیف کرانے کے لئے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ آئی ایم ایف اور اس کے ڈائریکٹرز، جو زیادہ تر مغربی طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہیں، کیا کریں گے، یہ تو دیکھا جائے گا۔ لیکن ماضی میں، جنرل ضیاء اور پھر جنرل مشرف کے دور میں، جہاں ہماری خارجہ پالیسی نے معیشت کو سہارا دیا، اس مرتبہ ہماری معاشی پالیسی خارجہ پالیسی پر بوجھ بن جائے گی۔ پاکستان کی نائو مشکل پانیوں میں ہے۔ کیا پتوار پر ہاتھ پُرعزم اور باصلاحیت ہے؟

(صاحب ِمضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین